قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہوئے ، حسب توقع وہاں جوتیوں میں دال بٹی۔خیر سے پارلیمان کی ایک کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی کی زیر نگرانی تشکیل کی گئی ہے جس نے کئی اجلاس کئے اس کا مقصد بھی کرونا کے حوالے سے ایک لائحہ عمل بنانا تھا اوروفاقی حکومت کی راہنمائی کرنا تھا بلکہ صوبائی حکومتوں کو بھی بتانا تھا کہ اس صورتحال میں کس طرح عوام اور ملک کو معاشی، معاشرتی اور صحت کو درپیش مشکلات سے نبر د آزما ہونا ہے۔ اسکے پہلے ہی اجلاس میں وزیر اعظم اپنی غزل سنا کر چلے گئے ۔اس کے بعد اپوزیشن نے انکے جانے کو دل پر لے لیا اور خوب ہجو گوئی کی۔پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی کوئی خاطر خواہ راہنمائی نہ دے سکا، با لآخر اپوزیشن کے اصرار اور انکی درخواست پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس منعقد ہوئے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے وہاں پر بھی سوائے دشنام طرازی کے کچھ سننے کو نہیں ملا۔امید تھی کہ پارلیمنٹ اس مشکل گھڑی میں حکومت کی راہنمائی کرے گی اور عوام جنکے ووٹوں سے وہ منتخب ہوئے ہیں اور جنکے مینڈیٹ کا ڈھونڈرا پیٹ پیٹ کر وہ ہر ادارے اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں انکے لئے کوئی ایسی راہ متعین کرنے کے لئے تجاویز دیں گے جس سے کرونا جیسی وبا سے نجات نہیں تو کم از کم اسکے اثرات کم کرنے میں مدد ملے ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق، اپوزیشن جماعتیں حکومت پر پل پڑیں کہ کرونا پر کوئی پالیسی پیپر بنانے میں ناکام حکومت کیسے ملک چلا سکتی ہے۔احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی اس حوالے سے بہت دور کی کوڑی لائے۔انہوں نے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی اب تک کی کارکردگی کو در خور اعتنا جانا اورپالیسی پیپر کا بیانیہ تیار کر کے واویلا مچانا شروع کر دیا۔یہ نیا طرز عمل ہمارے ہاں فروغ پا رہا ہے کہ ایک خاص قسم کا بیانیہ خود ہی تیار کرو اور اصل حقائق کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کی بجائے اپنے تیار کردہ نعروں اور جواز کو اس انداز میں پیش کرو کہ لوگ اصل بات کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ لفاظی کے گورکھ دھندے میں پھنس کر رہ جائیں ۔ اس سے مجھے ایک انگریز کے دور میں تحصیلدار بن جانے والے جاہل اور گنوار زمیندار کا قصہ یاد آ گیا۔یہ صاحب اپنی کاسئہ لیسی کی وجہ سے انگریز کی نظر عنایت تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن تھے با لکل کورے۔ انکی خوش قسمتی انہیں ایک بہت ذہین پٹواری اسسٹنٹ مل گیا۔انہیں ہر ہفتے کسی نہ کسی گائوں میں عوامی مسائل سننے کے لئے کھلی کچہری کرنے کی اوپر سے ہدایت تھی۔پہلی ہی کچہری میں انکا بھانڈا پھوٹ گیا اور خوب بے عزت ہوئے۔ سیانے پٹواری نے اگلی کچہری کے لئے ایک ترکیب ڈھونڈی۔ اس نے تحصیلدار کو بتایا کہ ہر کچہری میں آپ کے سامنے ایک میز ہو گا جس پر میز پوش اور سیاہی کی دوات ہو گی۔ جیسے ہی کوئی ایسا سوال آئے جس کا جواب نہ بن پا رہا ہو آپ نے شکایت کنندہ کی حمایت کرتے ہوئے طیش میں آکر میز پوش کھینچ دینا ہے۔ اسکے کھینچتے ہی سیاہی میز پوش اور آپکے کپڑوں پر گر جائے گی اور اسکی آڑ میں ہم کچہری ختم کر دینگے۔یہ میز پوش والی ترکیب اس قدر کارگر ہوئی کہ تحصیلدار صاحب نے باقی نوکری انتہائی کامیابی سے سر انجام دی اور سرخرو ہو کر ریٹائر ہوئے ۔لیکن جو انکا اصل کام تھا وہ انہوںنے کبھی نہیں کیا یعنی عوامی مسائل کا حل۔اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ اسے بھی میز پوش کھینچنے والی قیادت مل گئی ہے۔ وہ اصل عوامی مسائل پر بات کرنے یا حکومت کی راہنمائی اور اسے راہ راست پر رکھنے کی بجائے میز پوش کھینچنے کی تاک میں لگی رہتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس ہوئے اور اب سینیٹ اور قومی اسمبلی کے جاری رہنے والے اجلاسوں میں حکومت کو تو ضرور لتاڑا گیا کہ اس کے پاس ایک صفحے کا پالیسی پیپر نہیں ہے لیکن کسی پارلیمینٹرین نے آدھے صفحے کی تجویز دینا گوارا نہیںکی کہ جس سے یہ پالیسی پیپر تیار ہو سکتا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی پرگرام میں پیپلز پارٹی کے سب سے معقول لیڈر قمر زمان کائرہ نے فرمایا کہ میں سیاستدان ہوں اور سیاست کرونگا۔ انکا حق ہے ضرور سیاست کریں لیکن عوام کے لئے کریں ایسا نہ ہو کہ انہیں وقتی سیا سی فائدہ ضرور ہو لیکن عوام جنکے ووٹ کے لئے انہیں کل کو در در جانا ہے۔ انکی سیاست سے بیزار ہو چکی ہو۔ مسلم لیگ (ن) تو ہے ہی اقتدار کی جماعت۔ اقتدار میں ہو تو اس سے بڑی عوامی نمائندہ جماعت کوئی نہیں، اقتدار سے باہر کچھ عرصہ ہی یہ جماعت رہتی ہے اسکے بعد گروہ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس بار تو شاید یہ گروہ بھی نہ رہے۔ان کے اکثر لیڈروں کے پر پرزے نکل رہے ہیں اور وہ کسی وقت بھی محو پرواز ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک پالیسی پیپر کے اعتراض کا تعلق ہے تو ممکن ہے حکومت نے ایسا کوئی کاغذ نہ تیار کیا ہو لیکن جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے تو اس بارے میں بین الاقوامی ادارے اور کئی ممالک پاکستان کی کرونا کے دوران معاملات کی سوجھ بوجھ اور اقدامات کی تعریف کر رہے ہیں ،خاص طور پر معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقے کو بھوک سے بچانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی تو کئی ملک پیروی کر رہے ہیں۔ایک کے بعد ایک’’ احساس ‘‘کے نام سے پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں جس سے ہر وہ طبقہ مالی امداد حاصل کر رہا ہے جو کرونا کے باعث لاک ڈائون ہونے سے دو وقت کی روٹی بھی شاید نہ کھا سکتا تھا۔ اسی طرح سے لاک آئوٹ کو نرم کرنے کے حوالے سے بہت لے دے ہو رہی ہے خصوصاً پیپلز پارٹی اس حوالے سے خوب وفاقی حکومت کو کوس رہی ہے لیکن پوری دنیا اور خاص کر وہ ممالک جو کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں وہ بھی بالآخر اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرونا سے شاید بچ جائیں لیکن بھوک اور افلاس سے بچنا مشکل ہو گا۔کیونکہ لاک ڈائون سے معاشی پہیہ تقریباً جام ہو چکا ہے ۔اسکو چلائے بغیر کوئی بھی ملک نہ کرونا کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی بھوک کو روک سکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اب لاک ڈائون کھولنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بارے میں عمران خان پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں مکمل لاک ڈائون نہیں کرنا چاہئے۔ نقادوں سے گزارش ہے کہ پالیسی پیپر مانگنے کی بجائے پالیسی بنانے میں مدد کریں۔ میز پوش کھینچ کر کب تک کام چلائیں گے۔