سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں اور معذور ہونے والے افراد ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہیں، جس سے ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان بھر میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اس حوالے سے سر فہرست ہیں جبکہ شہروں کا موازنہ کیا جائے تو کراچی اور لاہور میں ٹریفک حادثات کا تناسب سے اوپر ہے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ ساتھ سڑکوں پر گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں ، بسوں، رکشہ اور مسافر گاڑیوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ لوگ سڑک پہ حادثات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ خاص طور پہ ترقی پذیر ممالک میں سڑک پہ نکلنے والے لاکھوں افراد انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں انڈیا سر فہرست ہے اور پاکستان کا دوسرا نمبر، کیونکہ دونوں ممالک کی عوام اور انکے مسائل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جبکہ دنیا بھر میں پاکستان 95 نمبر پہ ہے۔ ان حادثات کی وجہ سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں افراد ساری زندگی کیلیے ذہنی یا کسی نا کسی جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی 2020 ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات میںٹریفک حادثات کی بنیادی وجوہات میں سر فہرست تیز رفتاری ہے۔ سڑک پہ آتے ہی نجانے تمام لوگ کس عجلت کا شکار ہوتے ہیں کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ 80 سے 90 فیصد حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ دوسری بنیادی وجہ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا ہے۔ اول تو بہت کم لوگ حقیقی معنوں میں ان قوانین سے واقف ہیں،اکثریت ان قوانین سے نابلد ہے لیکن اگر کوئی شخص جانتا بھی ہو تو دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی ٹریفک قوانین کو توڑنا باعثِ فخر سمجھتا ہے۔ نیز بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کم عمری میں والدین گاڑی اور موٹر سائیکل وغیرہ اپنے بچوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ دیگر وجوہات میں کاروں، گاڑیوں ، بسوں، ٹرک ، رکشہ اور موٹر سائیکلوں وغیرہ کا بغیر مرمت کے استعمال کرنا ہے۔ اکثر ڈرائیور حضرات اپنی سواری میں ہونے والی تکنیکی خرابی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ گاڑی کی باقاعدہ تعمیر و مرمت اور دیکھ بھال کو نظر انداز کر کے اسے سڑک پہ لانا انتہائی بے وقوفی ہے کیونکہ معمولی سی تکنیکی خرابی بہت بڑے اور جان لیوا حادثے کا سبب بن جاتی ہے اور بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسکے علاوہ اوور لوڈنگ بھی ایک انتہائی بنیادی اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ میں وقتاً فوقتاً اپنی فیملی کیساتھ چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی گاؤں جاتا رہتا ہوں۔ سات سے آٹھ گھنٹے کے طویل سفر میں بارہا ایسے ٹرکوں اور بسوں سے سامنا ہوا ہے جن پہ انکی گنجائش سے زیادہ سامان اور سواریاں لاد دی جاتی ہیں اور ستم ظریفی یہ کی تیز رفتاری کیساتھ ساتھ سڑک کے بالکل درمیان میں ٹرک / مسافر بس کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک منظر ہوتا ہے اور ڈرائیور حضرات کی بے حسی کو عیاں کرتا ہے کہ چند پیسے زیادہ کمانے اور وقت بچانے کے چکر میں وہ اپنے ساتھ سینکڑوں افراد کی زندگی سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ رات کے وقت سفر کرتے ہوئے مجھے بارہا یہ تجربہ ہوا کہ جی ٹی روڈ پر اچانک سے ہماری گاڑی کے آگے کوئی سائیکل، موٹر سائیکل ، رکشہ ، گدھا گاڑی یا بیل گاڑی نمودار ہو جاتی ہے جن کے پیچھے کوئی انڈیکیٹر لائٹ نہیں لگی ہوتی۔ خاص طور پر سردیوں کی شدید دھند میں ایسی سواریاں بہت خطرناک حادثے کا سبب بنتی ہیں۔ ڈرائیور حضرات کی اکثریت فرنٹ لائٹس کو درست اور تیز رکھنے پہ توجہ دیتی ہے جبکہ پچھلی جانب کی لائٹس کومکمل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ارض پاکستان میں رہنے والے افراد ان سب باتوں کے عادی ہیں لیکن بیرون ملک سے آنے والے افراد شدید حیرانگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک جرمن دوست کی پاکستان آمد ہوئی۔ میں انہیں شہر گھمانے نکلا تو سڑکوں پہ بے انتہا رش ، ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم اور ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے لوگ ، ان تمام مناظر نے انکو شدید پریشانی اور گبھراہٹ میں مبتلا کر دیا۔ بحیثیت قوم ، ہم اپنے بنیادی مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک کی بدترین صورتحال پہ قابو پانے کیلیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ جن میں محکمہ ٹریفک پولیس اور حکومت کی ٹریفک قوانین کے حوالے سے جدید بنیادوں پہ قانون سازی انتہائی اہم ہے۔ میں جب بھی اس سنجیدہ موضوع پر بات کرتا ہوں تو عموماً اسے غیر ضروری سمجھا جاتاہے۔ لیکن دراصل اس پر ذرا سی سنجیدگی اور دلجمعی سے کام کیا جائے تو ہماری سڑکوں کا حال حلیہ بدل سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا اور کروایا جانا چاہئے۔ سڑکوں کی باقاعدہ تعمیر و مرمت کیساتھ اندرون شہر اور بیرون شہر مسافر بسوں اور سواریوں کی تعداد کو چار گنا زیادہ کیا جانا ضروری ہے۔ ان مسافر بسوں کے مناسب کرائے اور بہترین سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس اقدام سے سڑکوں پہ پرائیویٹ گاڑیوں کا رش کم ہوگا۔ موٹر سائیکل اس ضمن میں انتہائی اہم ہے کیونکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کی اکثریت موٹر سائیکل استعمال کرتی ہے۔ اگر انہیں کم کرائے میں مناسب سواری ملے گی تو سڑکوں پر سے موٹر سائیکلوں کا اژدھام کم ہو جائے گا۔ نیز قوانین کی خلاف ورزی کرنے پہ بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ اسکے بعد بھی اگر لوگ باز نہ آئیں تو انکی سواریوں کو ضبط کرکے تاحیات ڈرائیونگ پہ پابندی عائد کی جائے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ میٹرو پولیٹن شہروں جیسے اسلام آباد، لاہور، کراچی میں تو کسی حد تک مسافر بسوں کا باقاعدہ نظام موجود ہے لیکن پاکستان کے دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ٹریفک قوانین اور نظام کو رائج کیا جانا چاہئے تاکہ قیمتی وقت کیساتھ قیمتی جانوں کے ضیاع پہ بھی قابو پایا جا سکے کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی میں انکے افراد کے منظم ہونے کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے اور جب تک ہمارا ٹریفک کا نظام منظم و مربوط نہیں ہوگا ہمارا ترقی کا سفر تیز نہیں ہو سکتا۔