پاکستان اس وقت آٹے کے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ آٹے کی قیمت جو مئی میں 60 روپے کی قریب تھی اب 150 روپے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ لوگ سستا آٹا لینے کے چکر میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ میر پور خاص میں ایک انسان کی ہلاکت حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اگر اقتدار کی آنکھیں ہوں مگر کہتے ہیں اقتدار تو اندھا ہوتا ہے۔ اس اندھیر نگری میں کیا کچھ چوپٹ ہو سکتا ہے کسی کو خبر نہیں۔ فرانس کا انقلاب روٹی نہ ملنے کی وجہ سے آیا تھا۔ پاکستان میں گندم کھپت 2015ء میں 24400ہزار ٹن تھی جو اب بڑھ کر 29000 ہزارٹن پر پہنچ چکی ہے۔1972ء میں یہ8115ہزار ٹن تھی۔ یعنی گندم کی کھپت میں گزشتہ پچاس سال میں 383 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گندم کی پیداوار 2015ء میں25086 ہزار ٹن تھی جو اب بڑھ کر 2022ء میں26400 ہزار ٹن ہو چکی ہے گندم کی پیداوار 1972ء میں 6890 ہزار ٹن تھی گزشتہ پچاس سال میں پیداوار میں اضافہ 383 فی صد ہے 2015ء سے لیکر اب تک گندم کی پیدار میں 1314 ہزار ٹن کا اضافہ ہوا ہے یعنی پیداور میں اضافہ ایک اعشاریہ صفر پانچ فی صد ہے اور کھپت میں سات سال میں اضافہ4600 ہزار ٹن کا اضافہ ہے جو کہ ایک اعشاریہ ایک آٹھ فی صد بنتا ہے۔سات سال میں کھپت اور پیداور میں اضافے کی نسبت ایک اور تین بنتی ہے۔اب غور کرنے والی بات ہے کہ ہم کس طرح اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا میںگندم کی فی ہیکٹر پیداور کی حوالے سے پاکستان پہلے پچاس ممالک میںشامل نہیں ہے۔پاکستان کی فی ہیکٹر پیداور دو اعشاریہ چھ ٹن ہے جبکہ ہندوستان میں گندم کی فی ہیکٹر پیداور دو اعشاریہ آٹھ فی ٹن ہے۔چین کی فی ہیکٹر پیداور چار اعشاریہ سات ٹن ہے۔ اب ہم گندم کی پیداور میں یورپ ، امریکہ اور لاطینی امریکہ کے مقابلے میں تو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہاں کا موسم گندم کے لئے بہت سازگار ہے۔ ہمارے ہاں گندم کی فصل کا دورانیہ صرف پانچ ماہ ہے جبکہ کچھ ممالک میں یہ ایک سال تک چلا جاتا ہے۔ہم گندم کی فی ہیکٹر پیداور میں تین ٹن تک پہنچ سکتے ہیں اگر اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی جائے ۔ گندم کی قیمت پانچ ہزار فی من کے قریب ہو اور کھاد اور اچھے بیج کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اگر آنے والے دو سال میں گندم کی امدادی قیمت 5000 فی من ہو اور کھاد کی فراہمی بر وقت ہو تو گندم کے رقبہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی فی ایکٹر پیداور بھی بڑھ سکتی ہے۔اس وقت پاکستان میں گندم کی فی ایکٹر پیدار 26 من کے قریب ہے اس میں دو سال میں 35 من فی ایکڑ تک پہچا جا سکتا ہے۔ ہمارے چھوٹے کسان گندم کی کھاد کا انتظام نہیں کرسکتے۔اگر حکومت فی ایکڑ گندم کی کاشت پر 20 ہزار روپے دے تو دس من فی ایکڑ کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کی قیمت 40 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔اس وقت پاکستان کی گندم کا زیر کاشت رقبہ 23000ہزار ایکڑ کے قریب ہے۔ہم اگر اسکے رقبہ میں اضافہ ناں بھی کریں فی ایکڑ پیداور میں دس من کا اضافہ 30 فی صد سے زیادہ پیداور دے سکتے ہیں۔ اس وقت چین سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ملک ہے جس کی سالانہ پیداور136 ملیں ٹن ہے اور اس کی کھپت 141 ملین ٹن ہے۔دوسر نمبر پر بھارت ہے جس کی پیداور 105 ملین ٹن ہے اور کھپت 104 اعشاریہ پچاس ملین ٹن ہے انڈیا اپنی ضرورت سے پانچ لاکھ ٹن گندم وافر پیدا کرنے کی صلاحیت میں ہے۔تیسرے نمپر پر روس ہے جس کی متوقع پیداور 85 ملین ٹن ہے اور اس کی کھپت 44 ملین ٹن ہے۔ روس گندم کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ چوتھے نمبر پر پیداور میں امریکہ ہے جس کی سالانہ پیداور 48 ملین ٹن ہے اور کھپت 31 ملین ٹن کے قریب ہے۔ امریکہ کی گندم کی برآمد سالانہ 20 ملین ٹن ہے۔پاکستان اس وقت دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر جس کی پیداوار 26 ملین ٹن کے قریب اور سالانہ کھپت 29 ملین ٹن کے قریب ہے۔ اس وقت ہم تین ملین ٹن گندم درامد کرتے ہیں۔ جس کی قیمت 417 ڈالر فی میٹرک ٹن ہے۔جوکہ مئی 2022 میں 522 ڈالر فی میٹرک ٹن تھی۔ مئی میں پاکستان میں گندم کی قیمت 2500 روپے من کے قریب تھی جو اب 4000 کو کراس کر چکی ہے۔ پاکستان نے صرف روس کے ساتھ جو گندم کی درامد کا معاہدہ کیا ہے اسکی مالیت 112 ملین ڈالرہے اور ہم روس سے تین لاکھ ٹن گندم درامد کریں گے۔اگر ہم گزشتہ سال کی بات کریں توجولائی 2021ء سے لیکر فروری 2022ء تک آٹھ ماہ میں پاکستان نے 21 لاکھ ٹن کے قریب گندم درامد کی جس کی مالیت 752 ملین ڈالر کے قریب تھی۔اب اگر ایک محتاط اندازہ لگا یا جایا تو پاکستان کو سالانہ تیس لاکھ ٹن گندم درامد کرنے کی ضرورت ہے جس کی مالیت ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ایک طرف ہم ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹتے پھرتے ہیں تو دوسری طرف ہم ہر سال ایک ارب ڈالر کی گندم درامد کرتے ہیں۔ اگر ہماری منصوبہ بندی درست ہو تو ہم دس ملین ٹن گندم مزید پیدا کر سکتے ہیں اور ہم تین ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ہم کو صرف ایک ارب ڈالر ایک بار کسان کو دینے ہونگے قرضہ کی صورت میں یا سبسڈی کی صورت میں ایک سال میں ہم گندم کی پیداور میں خود کفیل ہو سکتے ہیں مگر ہمارے ارباب و اختیار یہ کریں گے نہیں انکا اقتدار تو امپورٹ بلوں میں کمیشن پر چلتا ہے۔ یہاں حکومت صرف آٹا کی کمیابی پر چلی جاتی ہے۔ 2007 ء کے آخر میں آٹا کا بحران ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت تھی اور اب تو گندم آنے میں کم از کم تین ماہ باقی ہیں۔ سندھ میں کٹائی مارچ کے آخر میں شروع ہو جاتی ہے۔اب یہ آٹے کا بحران کیا کچھ بہا کر لے جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔