اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48 واں اجلاس 22-23 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں منعقد ہوا اور اس سال کے کونسل آف فارن منسٹرز کے اِجلاس کا موضوع "اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری" تھا۔ کونسل کی منظور کردہ قراردادوں اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز پر 57 رکنی تنظیم کی طرف سے پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد وزرائے خارجہ کی 48ویں کونسل کے اجلاس کے اختتام پر اسلام آباد اِعلامیہ منظور کیا گیا۔ 70 نکاتی اِسلام آباد اِعلامیہ ایک جامع دستاویز لگتا ہے جس میں تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں مسلم دنیا کی طرف سے اِسلامو فوبیا کے انسداد کے لیے کی جانے والی کوششوں، کشمیر، فلسطین، افغانستان، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور یہاں تک کہ یوکرائن روس جنگ جیسے غیر مسلم علاقوں میں ہونے والے جنگی تنازعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل نے بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایک میزائل کے حادثاتی فائرنگ سے متعلق حقائق کی درست طریقے سے جانچ پڑتال کے مقصد کے لیے مشترکہ تحقیقات کے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ او آئی سی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں "بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ تصفیہ طلب مسائل کے حل کے ذریعے علاقائی سلامتی اور استحکام کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعمیری طور پر کام کرے اور اسلحے پر قابو پانے، تحمل اور اعتماد سازی کے اقدامات سمیت اسٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم کے لیے پاکستان کی تجویز کا مثبت جواب دے"۔ اِس کالم میں دو سوالات کا جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے او آئی سی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ او آئی سی نے مسلم دنیا کو درپیش مسائل کو کس حد تک حل کیا ہے؟پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک نسل، رنگ اور جغرافیائی محل وقوع سے بالاتر ہوکر مسلم دنیا کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اور مسئلہ فلسطین میں پاکستان کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اَہم عنصر ہے۔ اِس نکتے پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے ’’گہری ہمدردی اور دلچسپی‘‘ کو یاد کیا جو برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے اندر سیاسی شعور کی پیدائش سے ہی خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کی تحریک چلا کر کی۔ او آئی سی کے بانی رکن کے طور پر، پاکستان مسلم کاز کے لیے او آئی سی کی کوششوں میں ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے چاہے مسئلہ فلسطین ہو یا ایران عراق جنگ، کویت عراق جنگ، افغانستان کا مسئلہ ہو یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلم اقلیتوں کو درپیش چیلنجز ہوں. پاکستان کو تنظیم کے کئی اِجلاسوں کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہے جیسے کہ 1974 میں OIC کا دوسرا سربراہی اجلاس اور 1997 میں OIC کا ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس اور 1970، 1980، 1993، 2007 اور اب 2022 میں وزرائے خارجہ کی کونسل (CFM) کا اجلاس۔ او آئی سی کے حوالے سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ یہ ’’اوہ آئی سی‘‘ ہے۔ تاہم او آئی سی جیسی کثیر الجہتی تنظیم جو کہ جغرافیائی طور پر مربوط تنظیم نہیں ہے ،کے کردار کو عملی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا کثیرالجہتی فورم ہے تاہم اس کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ او آئی سی ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم نہیں ہے اس لیے یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوئی خاص طاقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح، OIC، بہت سی دیگر کثیر جہتی تنظیموں کے برعکس، اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے نفاذ کا سامان نہیں رکھتی۔ بلکہ، یہ صرف اخلاقی دباؤ ڈال سکتی ہے اور دوسری ریاستوں کے رویے اور ردعمل کو تبدیل کرنے کے لیے قائل کرنے والے اقدامات کا استعمال کر سکتی ہے۔ جبکہ یہ کام، او آئی سی فلسطین، روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور غیر قانونی طور پر ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی قراردادوں کی منظوری کے ذریعے کر رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ او آئی سی نہ تو کوئی فوجی اتحاد ہے اور نہ ہی اس کے پاس اجتماعی فوجی کارروائی کے لیے کوئی مشترکہ فوجی قوت ہے۔ مسلم دنیا کا سنگین مسئلہ اندرونی تقسیم ہے۔ 1945-1990 کے سرد جنگ کے دور میں مسلم دنیا بلاک سیاست میں تقسیم ہو گئی تھی جس کا مرکز سوویت قیادت والے کمیونسٹ بلاک اور امریکی زیر قیادت سرمایہ دارانہ دنیا تھی۔ اِس اندرونی تقسیم نے مسئلہ فلسطین کو بری طرح متاثر کیا۔ مسلم دنیا کو شیعہ اور سنی تقسیم کے علاوہ عرب اور غیر عرب کی تقسیم کا بھی سامنا ہے۔ مسلم ممالک کی اِس اندرونی تقسیم اور ذاتی مفادات کی حالیہ مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ جب اِسلام آباد میں وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48واں اِجلاس جاری تھا تو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بحیرہ احمر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ اور ابو ظہبی ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کی میزبانی کر رہے تھے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48ویں اجلاس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر او آئی سی کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے بجائے کَم اَز کَم "بنیادی مسائل پر اتحاد" کا مظاہرہ کریں۔ خاص طور پر دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو درپیش اسلامو فوبیا کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کے دیرینہ مسائل کے تناظر میں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔