تقریباً نصف صدی قبل، 30جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا مفتی محمود ، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) ، چوہدری ظہور الہٰی ، سردار شیرباز خان مزاری سمیت ، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے 22پارلیمینٹیرینز نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے قرار داد جمع کروائی ۔ جس پر ازاں بعد پندرہ مزید ممبران اسمبلی نے دستخط کیے ، جن میں صاحبزادہ نذیر سلطان، نواب محمد ذاکر قریشی ، مہر غلام حیدر بھروآنہ اور خواجہ جمال محمد کوریجہ سمیت دیگر شخصیات شامل تھیں۔ قرارداد میں تحریر کیا گیا کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد، نبی ہونے کا دعویٰ کیا، جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی اور بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی کوشش اور اسلام کے بنیادی احکام کے خلاف غداری کے مترادف ہے، نیز یہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا،اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے، ان کے پیروکاروں کو "مسلمان"کے علاوہ ، کوئی اور نام دیا جائے، یہ مسلمان کہلوانے کے حقدار نہیں ہیں، یہ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر ، اور خودکو اسلام کا ایک فرقہ بنا کر پیش کر کے، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اندرونی و بیرونی سطح پر تخریبی سرگرمیوں میںمصروف ہیں۔ قرار داد میں مزید تحریر کیا گیا کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس،جو مکۃ المکرمہ میں، رابطہ العالم الاسلامی کے زیر اہتمام 6تا 10اپریل 1974کو منعقد ہوئی ، جس میں 140مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی،میں، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت ، اسلام اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے، جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے حالانکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار، چاہے ان کو کوئی بھی نام دیا جائے، لیکن وہ مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے، تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک "غیر مسلم اقلیت" کے طور پر ، ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کیلئے احکام وضع کرنے کی خاطر، آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔قبل ازیں 22مئی 1974ء ، نشتر میڈیکل کالج کے تقریباً سو طلبہ ، شمالی علاقہ جات کے تعلیمی اور تفریحی دورے کیلئے بذریعہ چناب ایکسپریس، ملتان سے پشاور کیلئے روانہ تھے، گاڑی جب ربوہ(موجودہ چناب نگر)ریلوے اسٹیشن پر رُکی، تو حسبِ معمول چند قادیانی نوجوان گاڑی کی مختلف بوگیوں میں داخل ہوئے، اور قادیانیت کا لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے، طلبہ کے ڈبے تک بھی پہنچے، کفروارتداد کے لٹریچر کی یہ سرِعام تقسیم دینی غیرت و حمیّت کے منافی تھی، طلبہ نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے، ربوہ کے قصرِ امارت وخلافت میں زلزلہ آگیا۔ ربوہ، جو کہ ایک مخصوص اور محدود شہر تھا، جہاں قادیانی خلیفہ کی اجازت کے بغیر ، کوئی مسلمان بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا، وہاں ان کی اپنی وزارتیں اور نظارتیں تھیں، خلیفہ، ربوہ کا مطلق العنان حکمران تھا، غرضیکہ یہ ریاست کے اندر، ایک ریاست تھی۔ 29مئی ، ایک ہفتہ کے بعد ، یہ طلبہ پشاور سے ملتان کے واپسی سفر کے لیے روانہ ہوئے، ربوہ اسٹیشن پر طلبہ کی بوگی، جس کو نشان زدہ کیا ہوا تھا، پر قادیانی غنڈے ٹوٹ پڑے اور ربوہ پلیٹ فارم پر ان پر وحشیانہ تشدّد کیا۔ طلبہ کے جسم زخموں سے بھر گئے ۔ احمدیت زندہ باد کے نعرے لگے ، پورے ملک میں آگ لگ گئی۔ جونہی ٹرین فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچی غصّے سے بپھرا ہوا ، سارا شہر اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ عجیب جذباتی فضا پیدا ہوگئی۔ طلبہ کے جسم پر لگنے والے زخم اور بہنے والے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے کا عہد ہوا، ختم نبوت کے نام سے ملک گیر تحریک شروع ہوگئی۔ چنانچہ مولانا شاہ احمد نورانی نے معزز اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں سے آراستہ، مذکورہ پرائیویٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ قائدِ ایوان ذوالفقار علی بھٹو نے سانحہ ربوہ پر غور اور قادیانی مسئلہ پر سفارشات مرتّب کرنے کیلئے ، پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا اور سرکاری طور پر ، وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے اسمبلی میں بل پیش کیا۔سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں معزز ایوانِ اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر باقاعدہ بحث شروع ہوئی، قادیانی اور لاہوری گروپ نے اپنے اپنے محضر نامے پیش کئے ،جن کا جواب اکابر علماء کی ایک ٹیم نے تیار کیا۔ قادیانی گروپ کے کے سربراہ مرزا ناصر کو قومی اسمبلی میں زبانی طور پر اپنا موقف پیش کرنے اور سوالات کے جوابات اور جرح کے لیے بلایا گیا۔ 5سے 11اور 20سے 21؍اگست، کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد قادیانی پر جرح ہوئی۔ اسی طرح 27تا28اگست ، لاہوری گروپ کے صدر الدین ، عبدالمنان عمر اور مسعود بیگ پر دو روز جرح ہوئی، 5، 6ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹا۔ ان کا اسمبلی میں دو روز مفصل بیان ہوا۔ اسمبلی فلور پر لاہوری اور قادیانی گروپ جس طرح لاجواب ہوئے، وہ ساری باتیں "اسمبلی کارروائی"میں محفوظ ہیں۔ اگرچہ وہ کارروائی باقاعدہ شائع نہ ہوسکی، مگر معزز اراکین اسمبلی کی زبانی اس کے اہم نکات لوگوں تک پہنچتے رہے۔ 7ستمبر 1974ء ، یعنی آج کے دن ، 4بج کر 35 منٹ پر قومی اسمبلی نے ایک تاریخی بحث اور فریق دوم کومکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل سننے کے بعد یہ فیصلہ صادر کر دیا ، کہ اب قادیانی آئین اور ملکی قانون کی رُو سے بھی غیر مسلم ہیں۔پیش کردہ قرار داد کے حق میں 130ووٹ جبکہ مخالفت میں صفر۔ چنانچہ آئین کی دفعہ 260اور دفعہ160میں ترمیم عمل میں لائی گئی، جس کے مطابق پیش کردہ ترمیمی بل میں تحریر کیا گیا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق، قومی اسمبلی میں طے پایا ہے کہ اس بل کا مقصد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔ چنانچہ آئین کی دفعہ 260کی شق (2) کے بعد حسبِ ذیل نئی شق درج کی گئی جس کے مطابق :"جو شخص حضرت محمد ﷺ جو آخری نبی ہیں، کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں،یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے"۔ ذوالفقار علی بھٹو نے، بطور قائدِ ایوان، نصف گھنٹہ خطاب کیا۔ان کے اعلان کے ساتھ ہی اسمبلی نعرہ تکبیر ورسالت ، دینی ولولوں اور مذہبی جذبوں سے سرشار ہو گئی۔ ممبران آپس میں بغلگیر ہو گئے، یہاں تک کہ وزیراعظم بھٹو اور خان عبدالولی خان بھی اس خوشی کے موقع پر آپس میں گلے ملے۔ پورے ملک میں ایک عظیم الشان جشن بپا ہوا، جبینیں سجدۂ شکر سے سرشار ہوئیں، مساجد میں شکرانے کے نوافل ادا ہوئے۔ یقینا اس عظیم الشان اور تاریخی کامیابی کا سہرا ان شہیدوں کے سَر تھا جنہوں نے سنگینوں کے سائے میں عشقِ رسولﷺ کی داستانیں رقم کیں۔ عقوبت خانوں کی تاریکیوں میں درود وسلام کی شمعیں فروزاں کیں۔ جوانی کا گرم خون دے کر عشق ومحبتِ رسول کے چراغ کو فروزاں اور ختمِ نبوت کے علم سربلند کیے ۔ آج ان شہیدوں اور مجاہدوں کو خراجِ محبت وعقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ سلام ان پر جنہوں نے سنتِ سجاد زندہ کی سلام اُن پر جنہوں نے کربلا کی یاد زندہ کی