وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ برطانیہ سے کرپشن کے مقدمات کھلوانے کا معاہدہ ہو چکا ہے، پانامہ لیکس میںشامل دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ ’’اس لیکس میں 33 سے زیادہ آف شور کمپنیاں ہیں، ہم نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے دوبارہ ان کی تفصیلات مانگی ہیں، اس سلسلہ میں اگلے ہفتے برطانوی ہم منصب سے ملاقات کروں گا‘‘۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ پانامہ لیکس میں شریف خاندان کے سوا کسی کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں، اس سلسلہ میں بھی اگر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرتی تو شاید حقائق طشت ازبام نہ ہوتے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پانامہ لیکس میں شامل دیگر افراد اور کمپنیوں کیخلاف بھی مقدمات چلائے جائیں، جس سے اس تاثر کی یقینا نفی ہوگی کہ اس کا مقصد محض شریف خاندان کو نشانہ بنانا تھا، دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے مقدمات درج ہوئے تھے اور کئی ذمہ داروں کو ان الزامات کے تحت اقتدار تک چھوڑنا پڑا۔ اس لیے یہ تاثر غلط ہے کہ پانامہ لیکس کا مقصد محض شریف خاندان کو ہی کٹہرے میں لانا تھا۔ اب حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ برطانیہ سے کئے گئے کرپشن کے مقدمات کھولنے کے معاہدہ کے تحت اس عمل کو آگے بڑھائے اور جو کمپنیاں یا افراد اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف بھرپور طریقے سے کارروائی کرکے انہیں گرفتار کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ یہ کارروائی محض مقدمات تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے۔