کس نے پھولوں کو مہکایا کس نے ان میں رس کو چھپایا کس نے مکھی کو بتلایا اس نے کیسے شہد بنایا بولو کون خیال میں آیا جس کا کوئی جسم نہ سایہ یہ ایک نظم کا بند ہے جو ایک ہی وقت میں پہیلی بھی ہے اور پیغام بھی۔ثمینہ راجا کہنے لگیں کہ واقعتاً اس طرح بچوں کی ذہن سازی کی جائیگی۔ بچوں کے لئے لکھنا سب سے مشکل ہے کہ آپ کو بچہ بننا پڑتا ہے اور ذہن رسا سے ناپختہ دماغ کی سمت نمائی کرنا پڑتی ہے۔ نونہالوں کی دلچسپی سرفہرست ہے اور ان کی حیرتوں کی تشفی بھی۔ علامہ اقبال کی پہاڑ اور گلہری‘پھر جگنو والی نظم دیکھیں تو اس نابغہ کا مقصد دلنشیں ہے۔ ذرا سا کیڑا کیسے خیر کی علامت بنتا ہے کہ دوسروں کے کام کیسے آیا جاتا ہے۔ اسماعیل میرٹھی‘ صوفی تبسم اور قیوم نظر کے علاوہ بھی کئی نام لئے جا سکتے ہیں مگر میں تو فی الحال پانچویں اہل قلم کانفرنس کا احوال بیان کرنا چاہتا ہوں اور شعیب مرزا کو بہت ساری داد دینا چاہتا ہوں کہ قدرت نے انہیں ایک حساس دل عطا کیا ہے اور وہ قوم کے بچوں کے لئے ہمیشہ سے ایسی کاوشیں کرتے آ رہے ہیں کہ آنے والی نسل کی صحیح پیمانوں پر تربیت ہو سکے۔ انہوں نے ہم جیسوں کو بھی وابستہ کیا ہوا ہے۔ پانچ ستارا ہوٹل کے کشادہ ہال میں رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ چمکتے دمکتے چہرے روشن روشن آنکھوں والے۔ فطرت انہی میں تو نظر آتی ہے۔مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ باور آیا کہ زندگی کیا ہے۔ پاکستان بھر سے بچوں کے ادیبوں کی کثیر تعداد یہاں جمع تھی۔ یہ خوبصورت کانفرنس کلام الٰہی کی تلاوت سے آغاز ہوئی۔ پھر ذکر حبیبؐ کے لئے نعت بہت ہی معروف و مقبول نعت گو سرور حسین نقشبندی نے پیش کی۔ کمپیئرنگ میں فاطمہ خان اور شباہت قمر تھے ایک بہت بڑا پروگرام تھا۔ کورونا کے باعث یہ کانفرنس مارچ کی بجائے اکتوبر کے آخر میں منعقد ہوئی۔ لہٰذا اس کا موضوع بھی کورونا اور لاک ڈائون کے اثرات تھا۔ دوسرا منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کا تدارک۔ مہمانان خصوصی میں اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب نامور شاعر امجد اسلام امجد تھے ،دوسرے مہمانوں میں شاعر و معالج ڈاکٹر فرحت عباس‘ شجاعت علی بانو‘ سید اعجاز گیلانی (کینیڈا) ڈاکٹر عمران مرتضیٰ‘ و سلیم عالم‘ مسرت کلانچوی‘ الوینہ علی خان شرمین قمر‘ شیخ فرید‘عبداللہ نظامی‘ ریاض احمد قاری اور پروفیسر اسحاق وردک شامل تھے۔ آپ آئے زیادہ مہمانوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کانفرنس خاصی ’’ضخیم‘‘ تھی۔ بڑے سٹیج کے پیچھے ایک بڑا فلیکس آویزاں تھا۔ پانچویں اہل قلم کانفرنس ادب اطفال 2020ء امن اور ترقی بذریعہ ادب اطفال ،اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی کمی ہے۔ بس یہی بنیادی اور اساسی بات ہے کہ امید‘ یقین‘ عزم اور نیت کے ساتھ کام کرنے کی ٹھان لی جائے ،بچوں میں قائدانہ سپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شاہین صفت بن جائیں۔ انہیں بے یقینی اور مایوسی سے بچانا ہے کیونکہ مایوسی اعتماد کو لرزا دیتی ہے: بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے ایک وقت تھا جب بچوں کو گلستان سعدی پڑھا دی جاتی تھی اور ان حکایات سے بچوں کی اخلاقی تربیت ہوتی تھی۔اب زمانہ بہت کچھ بدل چکا ہے نئے چیلنجز ہیں ۔دنیا میں ہوتی ہوئی ایجادات اور طرز زندگی گلوبل ویلیج کے باعث یہاں بھی اثر انداز ہوتی ہے اب لکھنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ بچوں کو عالمی سطح پر بھی روشناس کروائیں اور اپنی بنیادی اقدار و روایات کو بھی ختم نہ ہونے دیں۔ خاص طور پر سائنس فکشن وغیرہ کی طرف آیا جائے جس سے بچوں کے ذہن میں کشادگی پیدا ہو۔ بچوں کو بے راہروی سے بچانے کے لئے انہیں پیاری پیاری دلچسپ اور اصلاحی کہانیوں کی طرف راغب کیا جائے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔ میں اپنی بیگم اور سب سے چھوڑے بیٹے حافظ عزیر بن سعد کو ساتھ لے کر کانفرنس میں گیا۔ شعیب مرزا اور ان کی پارٹی مستعد نظر آئی مجھے اظہار کے لئے بلایا گیا تو میں نے ایک یادشیئر کی، میں نے 1992ء میں پی ٹی وی کے مشہور پروگرام آنگن آنگن تارے کا ٹائٹل سانگ لکھا تھا: ہم ہیں پھولوں جیسے بچے ہم ہیں سب کو پیارے اپنے دم سے گھر ہے روشن ہم ہیں آنگن تارے آنگن آنگن تارے پتہ چلا کہ بہت سارے بچے تو بڑے ہو چکے ہیں بہت اچھا لگا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ خوب خوب تصاویر بنائیں۔ ڈاکٹر اسحاق وردگ خصوصاً ملے کہ بہت ہی پیارے اور بلاصلاحیت ہیں۔تقریب کا حال لکھنے کے لئے تو کئی کالم درکار ہیں چند نام مہمان مصنفین کے ضروری ہیں۔ حفیظ چودھری‘ ناصر محمود بیگ‘ مدثر سبحانی‘ اعجاز احمد لودھی‘ محمد فہیم عالم‘ اسامہ قاسم‘ نعیم اختر ربانی‘ حافظ عثمان معاویہ‘ قاسم سرویا‘ نعمان صابری‘ ضیاء اللہ محسن‘ اقبال سحر‘ ممتاز راشد‘ ایم آر شاہد‘ حسیب اعجاز عاشر‘ شہزاد اسلم راجا‘ اطہر محمود‘ ڈاکٹر تنویر سروری‘ وسیم عباس‘ محمد توصیف‘ ملک محمد اویس سکندر‘ سعد نقوی‘ پروفیسر اجمل‘ ‘ فاطمہ شیرانی‘ سدرہ گل مہک‘ نورین روما‘ شباہت قمر‘ عطرت بتول‘ مریم محمود اور کئی اور۔ آپ یقین کیجیے مجھے نام لکھتے لکھتے میری سانس پھول گئی ہے سارے نام لکھے تو کالم تمام شد سمجھیں۔ اس کانفرنس میں بچوں کے مصنفین اور بچوں کو انعامات دینے کے علاوہ کچھ ایواڈز بھی دیے گئے مثلاً پروفیسر دلشاد کلانچوی ایوارڈ معمار وطن ایوارڈ لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ ،وہاں محترمہ مسرت کلانچوی سے ملاقات ہوئی وہ ہمارے دوست محترم اسلم ملک کی بیگم ہیں اور یہ جوڑا ادب اور صحافت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ کانفرنس اکادمی ادبیات اطفال تعمیر پاکستان‘ پبلی کیشنز اینڈ فورم کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ اس میں تسنیم جعفری ایوارڈ ‘ انعم فاطمہ ایوارڈ بھی تھے سندھ سے آئے ہوئے ادیبوں سے بھی ملاقات ہوئی مسرت کلانچوی صاحب نے ایک کتاب پھولوں بھرا راستہ عنایت کی ۔ڈاکٹر فرحت عباس کی پہچان بھی یہی کانفرنس بن گئی ہے۔ پروین شاکر کا شعر: جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔