اس وقت توسندھ کا سوشل میڈیا اس نوجوان کا سوگ منانے میں مشغول ہے جس نے گذشتہ روز دریائے سندھ سے نکلنے والے روہڑی کینال میں خودکشی کی۔ اس نوجوان کا نام انعام میمن تھا۔ وہ ڈاکٹر تھا۔ کس غم کو ڈبونے کے لیے وہ خود ڈوب گیا؟ کوئی نہیں جانتا۔اس نے اپنے موبائل میں اپنی خودکشی کا سارا منظر ریکارڈ کیا ہے۔ وہ ویڈیواب وائرل ہو چکی ہے۔ خودکشی سے قبل ڈاکٹر انعام میمن بار بار کہہ رہے تھے کہ میں خوش ہوں۔ مگر کیا کوئی شخص خوشی سے اپنے جیون کا دیا بجھاتا ہے؟اس ویڈیو کو میں نے کئی بار دیکھا ہے۔ خودکشی کا خیال تو اکثر انسانوں کے دلوں میں آتا رہتا ہے مگر اس پر ہر کوئی عمل پیرا تو نہیں ہوتا۔ وہ ویڈیو میرے پاس محفوظ ہے اور محفوظ رہے گی۔ اگر میرا کوئی بھی قاری وہ ویڈیو دیکھنا چاہے تو میں اس کے ساتھ وہ ویڈیو شیئر کروں گا۔ جس ویڈیو کو دیکھ کر ڈاکٹر انعام میمن کی طرح میری روح بھی روہڑی کینال میں بہت دور تک بہتی رہی اور خودکشی کے حوالے سے مجھے بہت ساری تحریریں یاد آتی رہیں۔ آپ کی یاد آتی رہی رات بھر /غم کی لو تھر تھراتی رات بھر سندھ کے بہت بڑے اسکالر علامہ آئی آئی قاضی کے حوالے سے مشہور ہے کہ جب وہ اپنی جرمن جیون ساتھی ایلسا قاضی کی وفات کے بعد بہت تنہا رہ گئے تھے تب ان کے دل میں وہ احساس اٹھا جس احساس کو لیکر ایک ذہین ہندو نوجوان نے یہ الفاظ دہراتے ہوئے اپنے آپ کو ’’جل ارپن‘‘ کیا تھا کہ: ’’تو بھی پانی /میں بھی پانی/آو مل جائیں دونوں!‘‘ سوامی رام تیرتھ کی آتم ہتیا ایک بہت بڑا سوال ہے اور آج بھی خودکشی بذات خود ایک سوال اور ہر خودکشی اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ جایا کرتی ہے۔ ڈاکٹر انعام میمن کی خودکشی بہت سارے سوالات کو جنم دے گئی ہے۔وہ خودکشی جس پر شیخ ایاز نے ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ کتاب اس نے اس وقت لکھی تھی جب ایک سندھی قومپرست نوجوان دریائے سندھ میں دوستوں کے سامنے کود کر اس پار چلا گیا،جس پار جانے کے بعد کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ سندھ میں کارو کاری کی رسم اب تو دم توڑ چکی ہے مگر ایک وقت تھا جب آئے دن لوگ کلہاڑیوں سے کٹے ہوئے انسان کو موسم گرما کی دریاؤں میں بہتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ان دنوں میں دیہاتوں میں محبت کا مطلب خودکشی ہوا کرتا تھا۔دنیا کے بڑے بڑے انسانوں نے بھی خودکشی کی ہے۔ امریکہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب ہیمنگوے نے اپنے آپ کو اپنی شکاری بندوق سے شکار کیا تھا اور روس کے شاعر انقلاب مایاکو وسکی نے اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کر اپنی زندگی کی شمع گل کرلی تھی۔ اس میں موت کے بعد اس کے جیب سے جو شعر ملا وہ کچھ یوں تھا: روزمرہ کی لہروں سے ٹکرا کر/عشق کی کشتی پارہ پارہ ہوگئی/اب سمندر کو نیند آ رہی ہے/اب سمندر لوٹ رہا ہے/اب کون بیٹھ کر یہ حساب کرے کہ/کس نے کتنی بے وفائی کی؟/سمندر تھک چکا ہے/ سمندر کو نیند آ رہی ہے/سمندر لوٹ رہا ہے خودکشی کے حوالے سے بہت سارے سوالات میںسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ بہت سارے خودکشی کرنے والے پانی میں ڈوب کر جان کیوں دیتے ہیں؟ کیا دریا کی لہروں میں کوئی کشش ہوتی ہے۔ جب میں سوہنی میہیوال کے حوالے سے کی گئی عوامی شاعری پڑھتا ہوں تو مجھے بار بار یہ سوال بہت ستاتا ہے کہ اس نے پانی میں ڈوب کر جان کیوں دی؟ پانی تو زندگی کی بنیاد ہے۔ قدیم یونان میں فلسفیوں کا ایک ایسا گروہ تھا جو سمجھتا تھا کہ زندگی کی بنیاد پانی ہے۔ وہ پانی جو دریاؤں اور سمندروں کے ساتھ انسانوں کی آنکھوں میں ہوا کرتا ہے۔ جس پانی کے لیے ایک شاعر نے لکھا ہے: ’’پھول تو خاک دان سے آتے ہیں رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں؟ باہر آتے ہیں آنسو اندر سے ہاں مگر اندر کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ ہم زندگی کو ہی کم جانتے ہیں تو ہم موت کے بارے میں کتنا جان سکتے ہیں؟ موت تو ایک پہیلی ہے۔ زندگی کی با وفا سہیلی ہے۔ جس نے بھی بریڈ پٹ کی انگریزی فلم ’’میٹ جو بلیک‘‘ Meet joe Black دیکھی ہوگی وہ جانتا ہوگا کہ زندگی اور موت کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر چلتے ہیں؟ کیا زندگی اتنی خصیص ہے کہ اسے ایک ابھرے ہوئے جذبے کی لہر میں ڈوبو دیا جائے؟ زندگی تو بہت خوبصورت ہے۔ جو بھی رنگ اور روشنیاں ہیں وہ اسی کے دم سے ہیں۔انسان کبھی کبھار اتنا بے بس کیوں ہو جاتا ہے؟دنیا کے بڑے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے کہا ہے کہ خودکشی ایک لمحے کا مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ وہ لمحہ جب گذر جاتا ہے تب یہ خیال بھی ذہن سے اتر جاتا ہے۔ کیا خودکشی انسان کی پوری زندگی پر ایک لمحے کی جیت ہے؟انگریز شاعر ٹی ایس ایلیٹ لکھتا ہے: ’’میں دیوتاؤں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا مگر میں مانتا ہوں کہ دریا بھی ایک مٹیالا دیوتا ہے‘‘ وہ دریا جن کے کناروں پر تہذیب نے آنکھ کھولی۔ مگر یہ کیا؟ میں نے تو اپنا پورا کالم خودکشی کے نام کردیا۔ حالانکہ میرا موضوع تووہ پانی تھا جو آج کل سندھ کی سیاست کا سب سے بڑا موضوع بن گیا ہے۔دریائے سندھ میں پانی کی کمی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت بھی تھا جب بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور یہ مسئلہ اس وقت بھی تھا جب آصف زرداری کی صدارت تھی اور پیپلز پارٹی پاکستان کی انتظامی مالک تھی۔ یہ مسئلہ ہے یا بنایا گیا ہے؟وفاق کی طرف سے پانی کا جائز حصہ سندھ کو نہیں ملتا۔ مگر جو حصہ ملتا ہے وہ وڈیرے اور خاص طور پر حکومت میں شامل وڈیرے غریب آبادکاروں کو نہیں دیتے۔ وہ پولیس کے پہرے میں پانی اپنے کھیتوں اور فش فارمز کو دیا کرتے ہیں۔یہ بات درست بھی ہے کہ سندھ کا پانی ہوتا ہے مگر اس لٹے ہوئے پانی پر سندھ کے سرکاری وڈیرے جس غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دھرتی کے کسانوں سے لوٹتے ہیں وہ عمل تو ڈاکے جیسا ہے۔ اگر وفاق سندھ کا پانی چوری کرتا ہے تو ہمارے وڈیرے اس پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ پانی جو زندگی کی بنیاد ہے۔ پانی جس کے باعث ریگستان نخلستان میں بدل جاتے ہیں۔ پانی جس پر ملاح کشتی چلاتے ہیں۔ پانی جس میں مچھلیا ں اس طرح تیرتی ہیں جس طرح گلیوں میں بچے کھیلتے ہیں۔ ’’بول میری مچھلی کتنا پانی؟‘‘ انسان کی پیاسا بجھانے کے لیے کتنا پانی چاہئیے؟ دھرتی کی پیاس کے لیے کتنا پانی چاہئیے؟لالچ کی پیاس تو کبھی نہیں بجھتی۔ زندگی پانی کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ مگر اس وقت میرے ذہن میں جو سوال گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی پانی میں جاکر ختم کیوں ہو جاتی ہے؟ ہم کو پانی دو/ہم کو پانی دو/ہم کو پانی دو صرف اتنا کہ ہم پی سکیں اور کھیتی باڑی کرسکیں۔ ہاں ! اتنا زیادہ نہیں کہ اس میں ڈاکٹر انعام جیسے سجیلے نوجوان ڈوب کر مر جائیں!!