اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے تربیلا توسیعی منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا جس کے مکمل ہونے پر ملک کو پندرہ سو میگاواٹ اضافی ‘ سستی پن بجلی حاصل ہوگی۔اس منصوبہ کے تحت تربیلا ڈیم پر پہلے سے بنی ہوئی پانچویں سُرنگ کی اونچائی زیادہ کرکے اس میں بجلی بنانے کیلیے تین ٹربائن لگائے جائیں گے۔ پن بجلی کی لاگت بہت کم ہے۔ اسکا ایک یونٹ تین روپے سے کم قیمت میں پڑتا ہے جبکہ فرنس آئل وغیرہ سے ملنے والی بجلی کے ایک یونٹ کا نرخ بیس روپے سے زیادہ ہے۔تربیلا کی چار سرنگوں پر جو ٹربائن لگے ہوئے ہیں ان سے ہمیں پہلے ہی پونے پانچ ہزار میگاواٹ سے زیادہ سستی بجلی حاصل ہورہی ہے۔ ماضی میں ایک ٹربائن سے ڈیڑھ دو سو میگاواٹ بجلی بنتی تھی۔ اب ٹربائن ٹیکنالوجی بہت ترقی کرگئی ہے۔ ایک ٹربائن پانچ سو میگاواٹ سے زیادہ بجلی بنائے گی۔ گزشتہ چار دہائیوں سے مختلف حکومتوں نے پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی ۔بیرون ممالک سے درآمد کردہ تیل ‘ گیس‘ کوئلہ سے مہنگی بجلی بنانے کے سرکاری اور نجی منصوبے لگائے گئے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی بہت مہنگی ہوگئی اور ملک کو کثیر زرِمبادلہ ایندھن درآمد کرنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں تین بڑے اور متعدد چھوٹے دریا ہیں جیسے دریائے سوات‘ دریائے کابل اور دیر میں دریائے پنج کوڑہ وغیرہ۔ان پر پن بجلی کے درجنوںبڑے‘ چھوٹے اسٹیشن بنا کر مزید چالیس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ تاہم ‘پن بجلی کے منصوبہ کی تعمیر پانچ سے دس سال میں مکمل ہوتی ہے۔ کوئی جمہوری حکومت ایسا پراجیکٹ شروع نہیں کرنا چاہتی تھی جو اگلے جنرل الیکشن سے پہلے مکمل نہ ہو کیونکہ خیال یہ ہے کہ ایک زیرِ تعمیر منصوبہ عوام کو دِکھا کرحکمران جماعت ووٹ حاصل نہیںکر سکتی ۔ اسلیے جمہوری حکومتوں کی ترجیح رہی کہ ایندھن سے چلنے والے بجلی کے ایسے پلانٹ لگائے جائیں جو دو تین سال میں کام شروع کردیں۔ حالانکہ اس جلد بازی میں عوام کا سراسر نقصان تھا۔ اُنیس سو ساٹھ سے اُنیس سو ستّر کی دہائی کے وسط تک پاکستان نے دو بڑے ڈیم بنائے ۔منگلا اور تربیلا ۔ ان دو بڑے آبی ذخائر سے آبپاشی کی ضروریات بھی پوری ہوئیںاور سستی بجلی کی بھی۔ اُنیس سو اسّی کی دہائی تک بجلی وافر مقدار میں موجود تھی۔بلکہ ملکی ضروریات سے زیادہ تھی۔ جب بجلی کی قلّت سر اٹھانے لگی تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کاشور مچا لیکن وہ صوبوں کے درمیان بد اعتمادی اورلڑائی جھگڑے کی نذر ہوگیا ۔ اس سے بجلی کی وافر مقدار پیدا ہوتی اور موسم سرما میں زراعت کیلیے پانی کی قلت بھی دور ہوجاتی۔ گزشتہ چالیس پینتالیس برسوں میںہم پانی سے بجلی بنانے کے صرف تین قابل ِذکر درمیانہ سائز کے اسٹیشن بناسکے۔ ایک تو غازی بروتھا پن بجلی گھر۔ دُوسرا‘منگلا ڈیم کی اُونچائی بڑھا کر اسکی استعداد بڑھانے کا پراجیکٹ اور تیسرا‘نیلم جہلم پن بجلی گھر۔آخری دو منصوبے فوجی حکمران صدر جنرل پرویز مشرف نے شروع کیے تھے جس طرح منگلا اور تربیلا پراجیکٹس پرصدر جنرل ایوب خان نے کام شرع کروایا تھا۔انیس سو نوّے کی دہائی سے ہمارے سویلین حکمران ڈیزل اور فرنس آئل سے چلنے والے پرائیویٹ بجلی پلانٹس کی طرف چلے گئے۔نجی کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کیے گئے جنہوں نے عوام کے کڑاکے نکال دیے‘ صنعت کو تباہ کردیا۔ معاہدے کرنے والے حکمران خوشحال ہوگئے اور عوام بدحال۔ موجودہ حکومت نے پن بجلی کے بڑے منصوبوں پرحقیقی معنوں میںکام شروع کیا ہے۔ ماضی کی طرح نہیںہورہا کہ ایک منصوبہ کاا علان کیا جائے لیکن اسکے لیے رقو م مختص نہ کی جائیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں دیامیر بھاشا ڈیم کا بڑا شور مچایا گیا لیکن اسکے لیے درکار زمین خریدنے میں پانچ برس گزار دیے۔ اس ڈیم کو بنانے کا اعلان سینتیس برس پہلے کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس سے بجلی بنانے کے دس منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ کچھ پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ دریائے سوات پر مہمند(مُنڈا) ڈیم ‘ کرم تنگی ڈیم (دریائے کیتو‘ شمالی وزیرستان)اور دریائے سندھ پر داسو ڈیم بنائے جارہے ہیں۔ تربیلا کی توسیع کی جارہی ہے۔ دیا میر بھاشا پر کام پہلے کی نسبت کچھ تیز کردیا گیا ہے۔ اگلے چار سے آٹھ برسوں میں پانی ذخیرہ کرنے اور پن بجلی بنانے کے منصوبے مکمل ہوجائیں گے ۔سستی بجلی کی فراہمی میں اضافہ ہوجائے گا اور آبپاشی کی ضروریات کیلیے پانی کی دستیابی بڑھ جائے گی۔دیامیر اور بھاشا ڈیم بنانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تربیلا کی جھیل میں پانی کے ساتھ مٹی آنا کم ہوجائے گی جس سے اس کی عمر تیس سال اضافہ ہوجائے گا۔ ماہرین کے مطابق اسوقت پاکستان کے پاس ایک کروڑ پینتس لاکھ ایکڑ فٹ دریائی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے۔ زیرتعمیر منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد یہ صلاحیت دو کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ فٹ ہوجائے گی۔ سندھ کے لوگ دریائی پانی کے معاملہ میں بہت حساس ہیں۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے پرانے باسیوں نے تجارت اور صنعت کاری میںزیادہ دلچسپی نہیںلی۔ انکا زیادہ انحصار زراعت پر ہے جودریائی پانی پر منحصر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت میں ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس سے دریائے سندھ میں پانی جانا بہت کم ہوجائے گا جس سے ساحلی علاقے سمندر ہڑپ کرجائے گا۔ پہلے ہی ساحلی علاقوں کا خاصا رقبہ سمندر کی نذر ہوچکا ہے۔ اب وفاقی حکومت نے ٹھٹھہ کے قریب دریائے سندھ پر بیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی غرض سے ’سندھ بیراج‘ کی منظوری دی ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے اس پر اتفاق کیا ہے۔بیراج پر اگلے سال کام شروع ہوجائے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سمندر کو ساحلی علاقوں میں اندر کی طرف بڑھنے سے روکا جاسکے گا ۔یہاں سے دو نہریں بھی نکلیں گے جن سے مزید زرعی رقبہ سیراب ہوسکے گا۔اُمید ہے کہ اس بیراج کے مکمل ہونے پر سندھ کا اعتماد بڑھے گا اور وہ میانوالی ضلع میں مجوزہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں مثبت انداز میں سوچے گا۔ کالاباغ ڈیم منصوبہ پر تمام کاغذی کاروائی مکمل ہوئے عرصہ دراز گزر گیا۔ یہ چھ سات برسوں میں تعمیر کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف ساڑھے تین ہزار میگاواٹ سستی ترین بجلی مہیّاہوگی اور ساٹھ لاکھ ایکر فٹ پانی موسمِ سرما میں آبپاشی کیلیے دستیاب ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 1991 کے معاہدہ کے مطابق اس ڈیم میں ذخیرہ ہونے والے پانی میں سندھ کا حصّہ پنجاب کی نسبت زیادہ ہوگا۔ جب پاکستان بنا تو ہماری آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ تھی۔ اب تئیس کروڑ ہے یعنی ساڑھے چھ گنا ہوگئی ہے۔ دریائی پانی اُتنا ہی ہے جتنا قیام پاکستان کے وقت تھا۔ اسلیے فی آدمی پانی کی دستیابی بہت کم رہ گئی ہے۔ جس تیز رفتاری سے ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اسکی ضروریات پوری کرنے کیلیے پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ہماری بقا اور خوشحالی کیلیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت نے پانی کے جن منصوبوں پر کام شروع کیے ہیں وہ وقت پر مکمل ہوجائیں اور یہ پالیسی آئندہ بھی جاری رہے۔