وزیراعظم عمران خان کے دو روزہ دورہ ازبکستان سے امید ملی ہے کہ وسط ایشیا کے جو دروازے 1990ء سے کھلے ہیں‘ اب ہمیں خوش آمدید کہیں گے۔ دورے کا فوری تعلق ہمسایہ ملک افغانستان کی داخلی صورت حال سے ہے جس سے جڑے خدشات کا سدباب کرنے کے لیے پاکستان اور ازبکستان خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں افغان معاملے کے حل کے لیے دوستوں کا نیا بلاک تشکیل دینے پر دونوں ممالک میں اتفاق پایا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ازبک صدر شوکت مرز ائف کے دستخطوں سے جاری مشترکہ اعلامیہ میں باہمی تعاون کے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔ پاک ازبک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ''وژن سنٹرل ایشیا پالیسی'' اور سیاسی، تجارتی، سرمایہ کاری، توانائی، باہمی رابطوں، سکیورٹی، دفاع اور عوامی رابطوں کے تحت دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعاون کو مزید وسعت دی جائے گی۔اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ سی پیک کے تحت ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورک، فائبر آپٹک کیبل، انرجی پائپ لائنز اور خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع دستیاب ہیں دونوں ممالک ان مواقع سے فایدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بجا طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی کے خطرات موجود ہیں۔طالبان ایک منظم قوت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور ازبکستان کے ثقافتی تعلقات اور عوامی سطح پر رابطوں کو مزید وسعت دی جائے گی ، دونوں ملکوں کی یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں، لائبریریوں اور عجائب گھروں کے مابین تعاون بڑھانے اور وسط ایشیائی خطہ کے بہتر مفاد میں سی پیک کی بے پناہ صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائیگا۔دونوں رہنماو ں نے وسط ایشیاء سے بحیرہ عرب تک افغانستان اور کراچی ، گوادر اور بن قاسم کی بندرگاہوں کے درمیان ترمیز۔مزار شریف۔ کابل۔پشاور ریلوے منصوبے کی تعمیر کیلئے ایک اہم اقدام کے طور پراپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ واضح رہے کہ 1991ء میں ازبکستان کی آزادی کے بعد اس کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کرنیوالے اولین ممالک میں پاکستان شامل تھا۔دونوںرہنماوں نے بین الاقوامی اداروں کے پلیٹ فارم پر باہمی تعاون کی موجودہ صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ اقوام متحدہ ، ایس سی او، او آئی سی، ای سی او سمیت دیگر بین الاقوامی و علاقائی فورمز پر باہمی مفاد کے پیش نظر دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کیا جائیگا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن کی حیثیت سے فریقین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اسلاموفوبیا کے تدارک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے مشترکہ اقدامات پر بھی اتفاق کیا۔ مارچ 2005ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے جب ازبکستان کا دورہ کیا تو یہ کسی پاکستانی سربرا ہ کا دس سال میں پہلا دورہ تھا۔ اس وقت ازبکستان کے صدر اسلام کر یموف تھے۔ ان دنون دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی ۔دورے کے دوران وزیرستان اور پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کے معاملے پر دونوں رہنمائوں میں بات ہوئی۔ پاکستان کو شکایت تھی کہ ازبک شدت پسند ان علاقوں میں موجود ہیں۔ یہ ملاقات اس حوالے سے اہم تھی کہ نوے کے عشرے میں جب طالبان برسراقتدار آئے تو ازبکستان طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت کر رہا تھا جبکہ پاکستان کی ہمدردیاں طالبان کو حاصل تھیں۔تب بھی اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اقتدار طلوع اور غروب ہوا۔ دونوں طرف تعلقات میں بہتری کی جو خواہش تھی اسے کسی منصوبے کی شکل میں ڈھالا نہ جا سکا۔دونوں ملکوں کے مابین سٹریٹجک تعلقات کا معاہدہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے ایک بڑی پیشرفت ہے۔ پاکستان اور ازبکستان مل کر افغان تنازع کے پرامن حل کی خاطر نیا بلاک بنا رہے ہیں۔ پاکستان خطے کے دیگر ممالک چین‘ تاجکستان‘ آذربائیجان‘ ایران اور ترکی کی مدد سے پہلے ہی وسیع مشاورت کا آغاز کر چکا ہے۔ روس بھی اس عمل کا حصہ ہے جو علاقے کو مسلح تنازعات سے پاک کرکے پرامن تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں جو رابطے ہوئے ان کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک امریکہ اوراس کے اتحادیوں کو اڈے دینے پر تیار نہیں۔ سبھی کی آرزو ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور جنگ سے تباہ حال ملک خطے میں تجارتی راہداری کے طور پر کردار ادا کرے۔ افغان تنازع کو حل کرنے کی ذمہ داریوں سے امریکہ سبکدوش ہو چکا ہے۔ خطرات سے دوچار افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے ذمہ داری ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے سر آ پڑی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پچھلے پینتالیس سال سے افغانستان کے معاملات سے جڑا ہے۔ افغانستان میں امن منصوبے اور امریکہ طالبان مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ اب جبکہ پاکستان نے امن کانفرنس کا اعلان کیا ہے تو افغان حکومت نے اپنے سیاستدانوں کو پاکستان جانے سے روک دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے محتاط حکمت عملی کے باعث طالبان کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ ایسے میں حامد کرزئی جیسے چند افغانوں کی موجودگی سے یہ کانفرنس کس حد تک کامیاب قرار دی جا سکے گی ؟۔ طالبان 85 فیصد علاقے پر قابض ہیں ان کے بنا امن کانفرنس مذاق بن کر رہ جائے گی۔وسط ایشیائی ممالک سے بہتر تعلقات سے ہمیں اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں ملیں گی۔ علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔ ازبکستان اور ترکی کے متعلق طالبان کو تحفظات رہے ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوا تو ایک وسیع تر علاقائی اتحاد کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔