2018 میں سعودی صحافی کا قتل سعودی ولی عہد کا مسلسل تعاقب کررہاہے۔ جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ امکانات روشن ہوچکے تھے کہ اس قتل کا جادو سر چڑھ کر بولے گا ۔سعودی عرب اورامریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہواکیونکہ بائیڈن گزشتہ دو برسوں سے مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد فوری بعد سعودیوں کا مکو ٹھپ دیں گے۔ اس قدر جلد بازی کا گمان تک نہ تھا۔چند دن قبل منظرعام پر آنے والی امریکی ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی صحافی کے قتل کی منظوری دی جنہیں ترکی میں پراسرار طور پر قتل کردیا گیاتھا۔اس رپورٹ نے محمد بن سلمان کی شہرت اور اقتدار پر گرفت کو بری طرح متاثر کیا ۔ بائیڈن نے محمد بن سلمان کے ساتھ سربراہی سطح پر گفت و کے بجائے حکم جاری کیا کہ وہ صرف سعودی عرب کے حکمران سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کریں گے کیونکہ وہ ہی سعودی عرب کے اصل حکمران ہیں۔یاد رہے کہ 85سالہ شاہ سلمان علیل بھی ہیں کار سلطنت ان کے صاحبزادے محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں۔امریکیوں نے یمن میں جاری جنگ کی حمایت کے خاتمے اور سعودی عرب کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کی معطلی کا اعلان کرکے سعودیوں کو تاریخ کے مشکل ترین دوراہے پرلاکھڑا کیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے واضح اشارہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی موجودہ جہت صدر ٹرمپ کے دور حکومت سے بہت مختلف ہے۔ سعودی عرب کو ٹرمپ کے دور حکومت میںخطے میں من مانی کرنے کی جو چھوٹ ملی تھی وہ تمام ہوچکی ہے۔انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے امریکہ اب زیادہ حساس نظرآتاہے۔ خشوگی کے قتل پر امریکی انتظامیہ کے بدلتے ہوئے طرزعمل نے ترک صدر طیب اردگان کو ایک بار پھر متحرک کردیا۔ پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ عزم دہرایا کہ وہ خشوگی کے قتل کو بھولیں گے نہیں ۔ ترکی میں قتل کے بعد سعودی عرب اور ترکی کے درمیان زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ سعودی عرب نے ترکی پر مشرق وسطیٰ کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا اور بعد ازاں سعودی عرب نے ترکی سے درآمدات پر پابندیاں بھی عائد کیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے موجودہ طرز عمل نے سعودی عرب کے حکمران خاندان کے داخلی تنازعات اوتضادات کو ایک طرح سے ہوا دی ہے۔ اس کے مضر اثرات نہ صرف امریکہ سعودی عرب تعلقات پر مرتب ہوں گے بلکہ اقتدارکی داخلی کشمکش بھی تیز تر ہوجائے گی۔ شاہی خاندان کے بڑوں کو خوب اندازہ ہے کہ اگر محمدبن سلمان پوری طرح سلطنت کے تخت پر قابض ہوگئے تو وہ اگلی کئی دہائیوں تک برسراقتدار رہیں گے کیونکہ وہ ابھی فقط 35 برس کے ہیں اس کے برعکس شاہی خاندان کے اکثر لوگ معمر یا ادھیڑ عمر ہیں۔علاوہ ازیں محمد بن سلمان مشاورت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے مرضی کے فیصلے نافذ کرتے ہیں۔ وہ علاقائی ممالک کے ساتھ مروت اور شراکت داری کے بجائے ان پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں چنانچہ خطے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کے لیے بھی انہیں ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہے۔ اگرچہ سعودی عرب کے اندر محمدبن سلمان پر نقطہ چینی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن سعودی شاہی خاندان کے جو افراد جو یورپ اور امریکہ میں مقیم ہیں وہ محمد بن سلمان کے طرزحکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ ان کے روابط امریکہ اور مغرب کی بااثر لابیوں کے ساتھ ہیں اور تعلقات کا یہ سلسلہ کم ازکم آٹھ دہائیوں پر محیط ہے۔ سعودی عرب کا شاہی خانوادہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد یعنی بیسویں صدی کی ابتدا ہی سے مغرب کا حلیف ہے۔ اچھے اور برے وقتوں میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ سعودی عرب کی داخلی سیاست میں بھی امریکہ او ربرطانیہ کا گہرا کردار رہاہے اور اب بھی یہ کردار موجود ہے۔بیرون ملک مقیم سعودی شہری اپنے مغربی حلیفوں کو قائل کرتے رہتے ہیں کہ وہ سعودی عرب میں انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لیے آواز بلند کریں۔ان میں سے کئی ایک ایسے بھی ہیں جنہوں نے برسوں تک امریکیوں اور مغربی حلیفوں کے ساتھ مل کر کام کیا اور یہ لوگ گہرے دوستانہ اور کاروباری رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ واقعات کی ترتیب اور امریکیوں کے خطے میں مفادات کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ امریکہ محمد بن سلمان کے سعودی عرب کے بادشاہ بننے کے حق میں نہیں یا پھر انہیں بادشاہ بننے سے قبل اس قدر کمزور کردے گا کہ ان کا تخت مسلسل ہچکولے کھاتارہے۔کون نہیں جانتا ہے کہ ترک خفیہ ایجنسی نے سعودی قونصل خانے کی خفیہ ریکارڈنگ سی آئی اے اور چند ایک دیگر مغربی ممالک سے شیئر کی تھی۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس وقت رپورٹ کو منظر عام پرلانا ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ نظر آتاہے۔بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کے معاملات پر چھوٹ نہیں دیں گے بلکہ اسے جوابدہ بنائیں گے۔اس کا احتساب کریں گے۔اس طرح کی زبان امریکیوں نے سعودی عرب جیسے حلیف کے لیے کبھی استعمال نہیں کی۔ اگرچہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک نے سعودی عرب کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے لیکن ایران اور ترکی سمیت کئی ایک ممالک امریکہ اور سعودی عرب کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی کو ایک تاریخی موقع قرار دیتے ہیں کیونکہ اس طرح سعودی عرب کی توجہ داخلی امور پر مرکوز ہوجاتی ہے اور وہ خطے میں بالادستی حاصل کرنے کی کوششوں پر زیادہ وسائل صرف نہیں کرسکے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں جو نشیب وفراز حالیہ دنوں نظرآئے تھے وہ کافی پریشان کن تھے لیکن اب امید ہے کہ سعودی عرب کا جھکاؤ ازسر نو پاکستان کی جانب ہو جائے گا ۔ سعودی عرب یمن، شام، لبنان اورایران کے ساتھ تنازعات میںبری طرح الجھا ہوا ہے۔ اسے ان تنازعات سے نکلنے اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ دوسرے ممالک میں حکومتیں بدلنا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو برسراقتدار لانے کی کوششوں کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔پاکستان کے تجربات سے سعودی عرب بھی سیکھ سکتاہے جو اب افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیادپر مذاکرات کررہاہے اور کابل میں جمہوری نظام حکومت کی حمایت کرتاہے نہ کہ طالبان کے ازسرنو ظہور کی۔