پاکستان نے امریکہ کے ساتھ1954ء میں باہمی دفاعی تعاون کا پہلا معاہدہ کیا۔ امریکہ تو خیر عسکری محاذوں پہ عشروں سے سرگرم عمل تھا۔ وہ بھاری دفاعی سازو سامان بنا رہا تھا اور سپر پاور ہونے کی حیثیت اور مضبوط معیشت کے ساتھ پاکستان کو ہر لحاظ سے دفاع میں قابل رشک امداد فراہم کرنے کی پوری صلاحیت اور رجحان رکھتا تھا لیکن نو آزا دشدہ مملکت جو ٹھیک سے اپنے پیروں پہ کھڑی بھی نہ ہوئی تھی امریکی دفاع کو کون سا تعاون پیش کرسکتی تھی یہ ایک سوال تھا۔ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں مغربی جریدوں کے انٹرنیٹ ایڈیشن کھنگالتے ہوئے ایک ایسی تحریر ہاتھ لگی جو تاریخی کہلائی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان کے پہلے آمر اور فرینڈز ناٹ ماسٹرز جیسی کتاب کے مصنف جنرل ایوب خان کا وہ مضمون ہے جو 1964ء میں فارن پالیسی میگزین نے شائع کیا ۔یہ مضمون پاک امریکہ دفاعی تعلقات کے بہت سے پہلووں کا احاطہ کرتا ہے ، پاکستان کے پہلے فیلڈ ماشل کی تحریر ہونے کی حیثیت سے مخصوص اہمیت کا حامل بھی ہے اور حال میں بدلتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کو سمجھنے میں معاون بھی ہے ۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ کشمیر پہ بالخصوص اور پاکستان کے متعلق بالعموم مخصوص بھارتی ذہنیت کو آشکار بھی کرتا ہے جو شروع دن سے اس نوزائدہ مملکت کو تسلیم نہ کرسکی۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے مختصر عرصے بعد ہی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تھی۔ جنرل ایوب خان اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ دس سال ہوچکے جب پاکستان مغرب کا اتحادی بنا ۔اسی سال پاکستان سیٹو کا ممبر بناجس میں امریکہ برطانیہ اور فرانس شامل تھے اس کے ایک سال بعد اس نے عراق ، ایران، برطانیہ اور ترکی کے ساتھ بغداد معاہدہ کرلیا۔امریکہ گو اس کا حصہ نہیں تھا لیکن اس پہ اثر انداز ضرور تھا۔1958ء میں جب عراق اس معاہدے سے علیحدہ ہوگیا تو اسی کا نام سینٹو رکھ دیا گیا۔1959ء کے اوائل میںایران ، ترکی اور پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا باہمی معاہدہ کیا جو سینٹو کے دفاعی مقاصد کی توثیق کے خیال سے ڈیزائن کیا گیا۔اس طرح پاکستان امریکہ کے ساتھ ایک نہیں چار سکیورٹی معاہدوں میں شریک رہا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور واحد جنوبی ایشیائی ملک ہے جو بیک وقت سیٹو اور سینٹو کا رکن ہے۔پاکستان کی جغرافیائی صورتحال اسے یہ اہمیت عطا کرتی ہے۔مغربی پاکستان کی مڈل ایسٹ سے جڑی سرحدیں سوویت روس کے جنوب سرحدی علاقوں اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔اس کے پاس وہ قدیم پہاڑی درے ہیں جن سے گزر کر ماضی میں حکمران ہندوستان پہ حملہ آور ہوتے رہے۔مشرقی پاکستان برما کے ساتھ ملا ہو اہے اس طرح مشرقی اور مغربی پاکستان بھارت کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع ہونے کے سبب خود بھارت کے لئے دفاعی شیلڈ کا کام دے رہے ہیں۔یہ جنوبی ایشیا کی راہگزر بھی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر دنیا بھر بالخصوص بھارت کے امن اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان مضبوط اور مستحکم رہے۔اسکے باوجود پاکستان ان دفاعی معاہدوں میں شمولیت کے باعث مسلسل بھارتی تنقید کا شکار ہے اور بھارت اس پہ سرد جنگ کو خطے میں کھینچ لانے کا الزام دھررہا ہے۔بھارت کا شور شرابہ اس وقت سمجھ میں آیا جب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ 1959 ء میں معاہدہ کیا جس کی رو سے امریکہ پاکستا ن کو بھارت کی طرف سے ممکنہ جارحیت کے نتیجے میں عسکری امداد دینے کا پابند ہوگا۔نہرو نے امریکہ سے یہ یقین دہانی لی کہ یہ معاہدہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا(حالانکہ پاکستان کوا س کے سوا کسی ملک سے خطرہ کب تھا)۔اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو امریکہ پاکستان کے دفاع میں نہیںا ٓئے گا۔بھارت کے مخاصمانہ عزائم کی اس سے واضح تصویر اور کیا ہوگی۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان کو امریکی عسکری امداد کا مخالف کیوں ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت سے پانچ گنا چھوٹا ملک اس کی سلامتی کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ یہ ملٹری امداد تو صرف خود پاکستان کو تحفظ ہی فراہم کرنے کے لئے کافی ہوگی، کجا یہ کہ وہ بھارت کے لئے کوئی خطرہ بنے۔دراصل بھارت کی اس مخالفت کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ایک وہ ہندو ذہنیت جو شروع دن سے پاکستان کے قیام کو تسلیم نہیں کرسکی اور بھارت کو ایشیا میں واحد سپر پاور کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہے۔میں نے دفاعی تعاون کے معاملے میں امریکہ سے بھارت کے اس رویے پہ بات کی ہے ۔ اگست 1953,ء میں نہرو اور وزیراعظم محمد علی کے درمیان مہینوں پہ محیط باہمی مزاکرات میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ یہ مسئلہ ریاست کے عوام کی مرضی ومنشا کے مطابق حل ہونا چاہئے اور اس کا بہترین حل غیر متنازعہ اور غیر جانبدار استصواب رائے دہی ہے۔مزید یہ کہ استصواب رائے کمشنر اپریل 1954ء تک مقرر کردیا جائے گا جو اس وقت کے حالات کی روشنی میں اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرے گا جو منصفانہ اور غیر متنازعہ استصواب کے انعقاد کو یقینی بنائے گا۔اس کے فورا بعدنہرو کو ادراک ہوا کہ پاکستان تو امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے میں بندھنے جارہا ہے جو اسے عسکری طور پہ مستحکم ہونے میں معاون ہوگا۔انہوں نے واضح الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے امریکہ کے ساتھ یہ دفاعی معاہدہ منسوخ نہ کیا تو کشمیر پہ استصواب رائے کا یہ معاہدہ کالعدم ہوجائے گا۔اس پہ محمد علی نے جواب دیا کہ وہ سمجھ نہیں پارہے کہ امریکہ کے ساتھ محض ایک دفاعی تعاون کا معاہدہ کس طرح کشمیر کی قسمت پہ اثر انداز ہوسکتا ہے۔ باالفاظ دیگر اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی پاداش میں کشمیریوں کو ان کے استصواب رائے کے اس حق سے محروم کردیا جائے جو انہیں اقوام متحدہ ، پاکستان اور بھارت نے دیا ہے جس کی رو سے وہ جس سے چاہیں الحاق کر سکتے ہیں۔حالانکہ پاکستان اس سال دسمبر میں امریکہ کے ساتھ کسی معاہدے میں شریک نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی عسکری امداد حاصل کی تھی پھر بھی نہرو کشمیرسے متعلق اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے اور جواز پیش کیا کہ اگر پاکستان کو امریکہ سے کوئی عسکری امداد مل گئی تو خطے کا منظرنامہ ہی بدل جائے گا اور وہ ماحول ہی نہ رہے گا جس میں یہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ (جاری ہے) ظاہر ہے پاکستان بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں ڈکٹیشن دینے کی اجازت نہ دے سکتا تھا لہٰذا پاکستان نے مئی 1954 میں امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کرلیا۔یہاں یہ حقیقت کہ بھارت کشمیر سے متعلق اپنی زبان سے پھر جائے گا ایک دیرینہ حقیقت بن گئی۔اسی سال پاکستان امریکہ دفاعی معاہدہ شدید دباو میں آگیا جب روس نے پاکستان کی بغداد پیکٹ میں شمولیت پہ شدید ردعمل ظاہر کیا۔سلامتی کونسل میں جب بھی پاکستان نے کشمیر مسئلہ پہ قراداد پیش کی تو روس نے ووٹ کا اختیار استعمال نہ کیا اور پاکستان پہ جارحانہ مغربی بلاک کا حصہ ہونے کا الزام عائد کرتا رہا(جاری ہے)