ممتاز اسلامی سکالر احمد دیدات مرحوم فقیر کی دعوت پر طائف تشریف لائے تو انہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی کہ اگر آپ کی گاڑی خراب ہو جائے اور آپ گاڑی کے اندر بیٹھے رہیں اور لوگوں کو بلائیں کہ آئیں اور آپ کی گاڑی کو دھکا لگائیں تو کوئی نہیں آئے گا۔ تاہم اگر آپ اتر کر گاڑی کو اکیلے ہی دھکا لگانا شروع کردیں تو لوگ آپ کی مدد کو دوڑے چلے آئیں گے۔ آبی مذاکرات کے لیے پردیپ کمار سکسینا کی قیادت میں بھارتی آبی ماہرین کی ٹیم نے لاہور میں مذاکرات کے دوران ایک دلچسپ بات کہی کہ پاکستان اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ پاکستان نے تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا جس کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار سمندر برد ہوجاتی ہے۔ اگر ہم پانی کو سمندر برد ہونے سے محفوظ کرلیتے ہیں تو آپ کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت اپنا نہیں ہمارا حق غصب کر کے اپنی زمین آباد اور اپنی بستیاں روشن کرنا چاہتا ہے اور ہم اپنی صوبائی انائوں کے ہاتھوں اپنی بے بسی کا نہ صرف خود تماشا بن چکے ہیں بلکہ دنیا اس بے بسی کا نظارہ کر رہی ہے۔ بھارت سے آبی جنگ جوئی تو دو طرفہ بلکہ عالمی محاذوں پر جاری رہے گی مگر اس بھارتی طنزیہ سوال کا جواب کون دے گا کہ پاکستان اپنے حصے کا بہت سا پانی سمندر برد کیوں کر رہا ہے۔ اس سوال کا ایک جواب تو مرحوم منیر نیازی دے گئے تھے۔ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی بھارت نے روز اول سے کبھی ہماری شہ رگ کشمیر کاٹ کر،کبھی ہمارے حصے کے فنڈز، ہمارے حصے کا اسلحہ روک کر اور کبھی ہمارے دریائوں کا پانی سٹور کر کے اور کبھی سیلابوں کی شکل میں اسے چھوڑ کر ہمارا گلا گھونٹنا چاہا مگر پاکستان بڑا سخت جان ہے اور اسے مکمل تائید ایزدی بھی حاصل ہے۔ 1960ء میں ورلڈ بینک کی ضمانت کے ساتھ پاکستان اور بھارت میں سندھ طاس معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے پر ستمبر 1960ء کو کراچی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر جنرل محمد ایوب خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان میں بہنے والے تین دریائوں کا پانی استعمال کرے گا۔ ان دریائوں میں بیاس، ستلج اور راوی شامل ہیں جبکہ پاکستان کو سندھ، چناب اور جہلم کے پانیوں پر مکمل تصرف حاصل ہوگا۔ بھارت اس معاہدے کے تشکیل پا جانے کے بعد بھی پاکستان کے حصے کا پانی استعمال میں لا رہا ہے اور ان دریائوں پر بھی ڈیم تعمیر کر رہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اسی لیے اب تک اس معاہدے کی عملداری کے سلسلے میں پیش آنے و الی بھارتی رکاوٹوں پر مذاکرات کے 115 ادوار ہو چکے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ہنگامی صورت حال میں زیادہ سے زیادہ دس ہزار فٹ ایکڑ پانی کا ذخیرہ کرسکتا ہے لیکن 1984ء میں بھارت نے دریائے جہلم پر وولر بیراج اور آبی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین لاکھ فٹ ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی۔ اس بیراج پر پاکستان کے انتہائی شدید نوعیت کے تحفظات تھے۔ اس بارے پاکستان بھارت مذاکرات 1987ء سے لے کر 1998ء تک منعقد ہوتے رہے اور بالآخر بھارت نے نومبر 1998ء میں وولر بیراج کی تعمیر پر پاکستانی اعتراضات کو یکسر مسترد کردیا اور یوں بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ اب 2013ء سے پھر پاک بھارت مذاکرات پاکستانی حصے کے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی کے حوالے سے بات چیت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔ بھارت دریائے چناب پر پکل ڈل ڈیم پر 1000 میگاواٹ کا بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے جبکہ لوئر کلنائی ڈیم 48 میگاواٹ کا پن بجلی منصوبہ ہے۔ لاہور میں سید مہر علی شاہ کی قیادت میں پاکستان کے آبی ماہرین کی ٹیم نے بھارت سے آئی ہوئی ٹیم کے ساتھ ان دونوں ڈیموں کے ڈیزائن کے بارے میں انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ چونکہ پاکستانی یا بھارتی مذاکراتی ٹیم نے کسی پریس کانفرنس یا بریفنگ کا کوئی اہتمام نہ کیا تھا اس لیے بزم ناز سے یار الگ الگ خبر ہی لائے ہیں۔ اکثر اخبارات نے تو ان مذاکرات کو بے نتیجہ ہی قرار دیا ہے مگر ایک ثقہ اخبار کے مطابق بھارت پاکستانی ماہرین کو اگلے ماہ کے اواخر میں دونوں ڈیموں کے معائنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ وہ ان ڈیموں کا جائزہ لے کراپنے دعوے کی سچائی ثابت کرسکیں گے کہ ان دونوں ڈیموں کا ڈیزائن سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر ہو یا آبی تنازع،سیاچن ہو یا کوئی اور معاملہ بھارت کی سوچی سمجھی مذاکراتی سکیم یہی ہے کہ معاملے کو جتنا طول دے سکو اتنا طول دو، درمیان میں کوئی عذر تراش کر یا کوئی بہانہ بنا کر مذاکراتی عمل معطل کردو۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا ہیں۔ مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے پرانا معاملہ ہے۔ سکیورٹی کونسل ستر برس پرانا مسئلہ اپنے ذمے لے کر ابھی تک حل نہیں کروا سکی اور بھارت اپنی من مانی کر رہا ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ آبی ماہرین باربار دنیا کو متنبہ کر رہے ہیں کہ اگلی جنگیں ایک بار پھر ماضی کی یادتازہ کردیں گی۔ کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ یہ مستقبل کی جنگیں پانی کے معاملے پر ہوں گی۔ پاکستان کے بارے میں تو ماہرین نے بڑی خوفناک پیش گوئی کی ہے کہ محض تین برس کے بعد پاکستان میں پانی کا بحران انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کرے گا۔ صاف پانی تو ہماری حکومتیں لوگوں کو مہیا نہیں کرسکیں، کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ لوگ پانی سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ کیسی کربناک صورتحال ہوگی کہ ہاتھ دھونے کو بھی پانی نہ ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے پانی کے بحران کے حل کے لیے ڈیموں کی تعمیر کو از بسکہ ضروری قرار دیا اور اس کے لیے ڈیم فنڈ قائم کر دیا۔ قوم دل کھول کر اس فنڈ میں حصہ ڈال رہی ہے۔ اس وقت تک ایک ارب 68 کروڑ کے قریب رقم جمع ہو چکی ہے۔ شیخ احمد دیدات مرحوم نے سچ کہا تھا آپ آغاز کریں لوگ مدد کو دوڑے آئیں گے۔ ہمیں حکمت اور جرات کے ساتھ بھارت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں اور نہ صرف پانی بلکہ مسئلہ کشمیر بھی حل کرنا چاہیے۔