حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے‘ خارجہ تعلقات کی جہتیں بدلتی رہتی ہیں۔اصل چیز قومی مفاد ہوتا ہے۔ جہاں مفاد وابستہ ہو تعلق کا وہ رخ ہرا بھرا ہونے لگتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کا بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے ٹیلی فونک رابطہ خارجہ تعلقات کے ضمن میں حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان کی جنوبی ایشیا میں پذیرائی کے امکانات بڑھنے لگے ہیں۔ اس بدلائو کا ایک پس منظر ہے جس کا جائزہ لئے بغیر اس رابطہ کاری کے عمل اور اس کے اثرات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا۔ یہاں جلد ہی جنرل ضیاء الرحمن کی اہلیہ بیگم خالدہ ضیا اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد ایک دوسرے کی سیاسی حریف بن کر ابھریں۔ خالدہ ضیاء اور ان کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو عمومی طور پر پاکستان نواز سمجھا جاتا ہے جبکہ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ پاکستان مخالف شناخت رکھتی ہیں۔ دونوں کی باہمی مخاصمت اور مسابقت کافی گہری ہے۔ حسینہ واجد کو پاکستان پر کئی وجوہات کی بنا پر غصہ ہے اس غصے کی ایک جھلک بنگلہ دیشی عدالتوں سے پاکستان نواز تصور کئے جانے والے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں وکارکنوں کو سخت سزائوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اکثر ایسے رہنمائوں اورکارکنوں کو بنگالیوں کا غدار قرار دے کر اور 1971ء میں پاک فوج کی مدد کرنے پر موت کی سزا دی گئی۔ پاکستان کے لئے یہ صورت حال تکلیف دہ رہی لیکن اس نے بین الاقوامی روایات کا احترام کرتے ہوئے اپنا ردعمل محدود رکھا۔پچاس سال سے بہنے والا غصے کا لاوا شاید سرد ہونے کے عمل میں ہے۔ بنگلہ دیش کی حکمران جماعت اور اس کی قیادت کی سوچ بھی بدلتی نظر آ رہی ہے۔ نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد بنگلہ دیش گئے۔ جہاں انہوں نے ببانگ دہل بنگلہ دیش کی تحریک میں بھارت کے تخریبی کردار کا اعتراف کیا۔ مودی حکومت نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان کے خلاف مزید بھڑکایا۔ اس نفرت انگیز مہم کا نتیجہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں نکلا۔ پاکستان سے دور کرنے کی خاطر نریندر مودی نے بنگلہ دیش کو کئی شعبوں میں معاشی و تجارتی منصوبوں کے خواب دکھائے۔ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مودی جی نے شہریت کا متنازع بل پاس کیا۔ اس قانون کے تحت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے افراد کے لئے بھارتی شہریت ممنوع قرار دیدی گئی۔ عمومی طور پر پاکستان اور افغانستان سے لوگ بھارت کی شہریت کی درخواست نہیں کرتے۔ آسام کے ساتھ بنگلہ دیشی سرحد ہے۔ بنگالی آج سے نہیں آزادی سے پہلے بھی کام کاج کے لئے زیادہ خوشحال مغربی بنگال اور آسام کا رخ کیا کرتے تھے۔1971ء میں بہت سے بنگالی مسلمان آسام آ گئے۔ اس وقت بھارتی حکومت نے بھی انہیں خوش آمدید کہا۔ شہریت بل آنے کے بعد ان بنگالی مسلمانوں کی بھارت سے بیدخلی کا خدشہ پیدا ہوا۔ بی جے پی حکومت نے بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر نکالنے کے انتظامات شروع کر دیے‘ ان کے لئے الگ سے کیمپ بنائے جانے لگے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سمیت عالمی سطح پر اس قانون کی مذمت کی گئی۔ یوں یہ قانون براہ راست بنگالیوں سے جھگڑے کی بنیاد بن گیا۔ بی جے پی کے رہنما اور اس کے حامی پریس نے بنگالی مسلمانوں کے لئے برے برے نام استعمال کئے‘ انہیں دیمک قرار دیاگیا۔ حسینہ واجد واضح طور پر بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں لیکن جب بنگالی مسلمانوں کے خلاف بھارتی اقدامات کی خبر ہوئی تو انہیں ناگوار محسوس ہوا۔ ان کی ساری سیاست بنگالی قوم پرستی پر رہی ہے۔ بنگالیوں کو گالی ان کے لئے بہت تکلیف دہ تھی۔ بنگلہ دیش میں مودی اور ان کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ ایک ایسا ماحول بننے لگا جس میں ہندوئوں اور بنگالی مسلمانوں کے تعلقات کی تاریخ 1947ء سے قبل کے زمانے سے دوبارہ سامنے آنے لگی۔ کلکتہ فسادات کا ذکر ہونے لگا۔ یہ احساس بیدار ہوا کہ بنگلہ دیش کو بھارتی اثر سے نکل کر دنیا کے ساتھ آزادانہ تعلقات قائم کرنا چاہئیں۔ پاک بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کا ایک ممکنہ سبب چین کی بنگلہ دیش میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ چین کی پیشرفت حیرت انگیز تھی۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کو پہلے صرف پاکستان چیلنج کرتا تھا۔ بھارت نے سری لنکا اور نیپال پر اپنی گرفت مضبوط رکھی تھی۔ بھوٹان جیسے ملک تو بھارت کی ناراضی مول ہی نہیں لے سکتے تھے۔چین نے مختلف منصوبوں سے ان ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا۔ سری لنکا‘ برما اور بنگلہ دیش میں چٹا گانگ میں پورٹ تعمیر کیں۔ پاکستان گوادر کی شکل میں چین تزویراتی پیش قدمی کر چکا ہے۔ چین نے بحیرہ ہند میں بھارت کی بالادستی ختم کر دی۔ پھر صومالیہ کے قزاقوں سے نمٹنے کے لئے چین نے جبوتی میں اپنا اڈہ بنا لیا۔ چین نے نیپال میں سرمایہ کاری کی۔ یہ سب بھارت کے لئے برداشت کرنا مشکل ہے۔ چین کی دلچسپی کنکٹویٹی میں تھی۔ چین کے پاس دو راستے تھے۔ملاکا سٹیٹس والا روٹ امریکی نیوی بلاک کر سکتی تھی۔ دوسرا روٹ سنکیانگ سے گوادر کا ہے۔ بھارت نے چین‘میانمار‘انڈیا‘ بنگلہ دیش اکنامک کوریڈور بننے نہ دیا لہٰذا چین نے خطے کے ممالک کو دیگر طریقوں سے ملانے پر کام کیا۔ چین کا جہاں اثر ہو گا وہاں پاکستان کے مفادات کا کسی نہ کسی سطح پر خیال رکھا جاتا ہے۔ چین کی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مخاصمت کم کرنے میں دلچسپی موجود ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس ساری صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے بروقت پیشقدمی کی ہے۔ میں جس زمانے میں پاکستان کا وزیر خارجہ تھا تو بنگلہ دیش میں مرشد خان وزیر خارجہ تھے۔ بیگم خالدہ ضیاء کی حکومت تھی۔ میں نے اپوزیشن لیڈر حسینہ واجد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ وزیر خارجہ کے طور پرمیرا فرض تھا کہ کسی جگہ پاکستان کے متعلق مسائل ہوں تو ان کا جائزہ لوں اور ہو سکے تو ان مسائل کو حل کروں۔ حسینہ واجد سے ملاقات اچھی رہی۔ میرے والد میاں محمود علی قصوری بڑے وکیل تھے‘ مشرقی پاکستان کی سیاسی‘ مذہبی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے‘ ان میں لیفٹ‘ رائٹ ہر قسم کے نظریات والی شخصیات شامل تھیں۔ اصغر خاں کے بعد مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی وہ دوسری شخصیت تھے جنہیں وہاں پذیرائی ملی۔ والد صاحب کی وجہ سے مجھے بنگلہ دیش میں کئی احباب میسر آئے۔ خالدہ ضیاء کے دور میں ہمارے تعلقات مثالی تھے‘ کوئی دقت نہ ہوتی۔ حسینہ واجد کے زمانے میں یہ تعلقات خراب ہو گئے تاہم مودی حکومت نے بھارت میں جو نفرت اور تشدد کا الائو بھڑکایا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ پاکستان اس ماحول کو دیکھ چکا ہے اور خود کو بدل رہا ہے لیکن بی جے پی بھارت میں خرابی کو اس سطح پر لے گئی ہے کہ اب وہ خود صورت حال کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ آر ایس ایس کے کارکن آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیشی مسلمانوں کو 1947ء سے پہلے کی کہانیاں اور فسادات یاد آ رہے ہیں۔ اس صورت میں بنگلہ دیش کا ردعمل فطری ہے۔ ہم نے بھی اچھا کیا کہ اختلافات کو کم کرنے کے لئے وزیر اعظم خود آگے بڑھے۔