دہلی اوراسلام آباد سے پاک بھارت تعلقات میں نہ صرف بہتری کے اشارے مل رہے ہیں بلکہ الیکشن کے بعد دونوں ممالک کے درمیان رسمی مذاکراتی عمل بھی بحال ہونے کے روشن امکانات نظر آتے ہیں۔ بھارت سرکار نے طویل غور وفکر اور ناکام تجربات کے بعد بتدریج اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ سخت گیر پالیسی کے برعکس مکالمے کا راستہ اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی حادثہ اس عمل کو ابتدائی مرحلے میں ہی سبوتاژکردے جیسے کہ ماضی میں ہوتاآیا ہے تاہم اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں طے پاچکا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا عمل شروع کیاجائے گا ۔ پاکستان سے مذاکرات کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر میں جاری تشدد تصور کیا جاتاہے۔ کشمیرمیں لوگوں کو گاڑیوں کے تلے کچلا جارہاہو تو پاکستانی حکام یا سیاستدان اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ’’جپھی‘‘ نہیں مارسکتے۔ جو مارتے ہیں رائے عامہ انہیں مسترد کردیتی ہے۔ چنانچہ اس مرتبہ کشمیر میں حالات کی بہتری کے لیے رفتہ رفتہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔ حالات کو سازگار بنانے کے لیے سری نگر میں فورسز پر سنگ باری کرنے والے نوجوانوں کی رہائی کا عمل شروع ہوچکاہے۔ رمضان المبارک میں یک طرفہ سیزفائر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مزاحمتی لیڈرشپ پر عائد پابندیوں میں نرمی کے آثار ہیں۔ میرواعظ عمرفاروق کو بیرون ملک سفر کے لیے پاسپورٹ فراہم کردیاگیاہے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول کی جگہ اب بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کشمیر کے معاملات میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ڈول کی بے لچک اور سخت گیر پالیسیوں نے بھارت کی سفارتی اورسیاسی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کیا لہذا انہیںفیصلہ سازی کے عمل سے فی الحال کنارے کردیاگیا ہے۔حال ہی میں انڈین ایکسپریس کو راج ناتھ نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ماضی کے برعکس کشمیریوں کوغیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی۔ راج ناتھ نے گزشتہ ہفتہ سری نگر کا دورہ کیا اور وزیراعظم نریندر مودی کو بتایا کہ جنگ بندی کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا جانا مفید ہے۔ راج ناتھ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور مذاکرات کی بحالی کے لیے دلچسپ شرط رکھی ۔ کہتے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کی بحالی میں دلچسپی کا عوامی سطح پر اظہار کرے۔ پاکستان کے عسکری اداروں کو پاک بھارت تعلقات میں عمومی طورپر رکاوٹ تصور کیاجاتاہے۔بھارتی لیڈرشپ کہتی رہتی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں لیکن فوج انہیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔اس تاثر کو زائل کرنے کی خاطر پاکستان کی عسکری قیادت نے کھل کر مذاکرات کی بحالی اور مکالمے کے ذریعے تنازعات کے حل کے حق اپنا وزن ڈال دیاہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاکول ملٹری اکیڈی میں خطاب کرتے ہوئے کہا: پاک بھارت تنازعات کا حل جامع مذکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات خطے کے امن کے لیے ضروری ہیں۔ یہ مذاکرات برابری کی سطح اور عزت و وقار کے ساتھ ہونے چاہئیں جس میں کشمیر سمیت تمام باہمی معاملات پر بامعنی بات چیت شامل ہو۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستانی اور بھارتی حکا م ایک صفحے پر تھے لیکن جس دن جنرل باجوہ کا بیان آیا اسی دن بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے جموں میںایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بندوق سے مسئلہ کشمیر نہیں حل ہوگا۔ مشترکہ کوششوں سے ہم امن کا قیام ممکن بناسکتے ہیں۔ ان بیانات نے بھارتی اور پاکستانی میڈیا میں ایک بار پھر یہ بحث چھیڑدی کہ کیا دونوں ممالک کی افواج سفارت کاری اور سیاسی عمل کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہیں اور وہ خطے میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی راکے سابق سربراہ اے ایس دلت جو پاکستان اور کشمیر یوں کے ساتھ مذاکرات کے بڑے علمبردار ہیں‘ نے مودی سرکارکو مشورہ دیا کہ وہ جنرل باجوہ کو دہلی کے دورے کی دعوت دیں اور ان کا پرتپاک استقبال کرنے کے لیے سرخ قالین بچھائیں۔ سفارتی اور سیاسی حلقوں میں مشہور ہے کہ فوجی کمان کوئی بیان جاری کرتی ہے توپورا ریاستی میکانزم حرکت میں آجاتاہے۔ معلوم ہوتاہے کہ دونوں ممالک کے فوجی سربراہوں کے بیانات کے بعد ریاستی ادارے بھی متحرک ہوگئے۔ 29مئی کو دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پررا بطہ کرکے اتفاق کیا کہ ہر صورت میں 2003کے سیز فائر معاہدے کی پابندی کی جائے گی اور امن یقینی بنا کر موجودہ صورتحال بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ کمانڈزر کی سطح پر فلیگ میٹنگز جاری رکھنے اور تمام مسائل ہاٹ لائن رابطوں کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔یہ ایک غیر معمولی پیش رفت تھی کیونکہ گزشتہ چار ربرس سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ کی سی کیفیت تھی۔ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور درجنوں مارے گئے لیکن ڈی جی ایم اوز نے کوئی خبر نہیں لی۔ میڈیا نے بھارتی صحافیوں کے دورہ پاکستان کو زیادہ کوریج نہیں دی لیکن یہ بہت اہم واقعہ تھا کہ حال ہی میں بھارتی صحافیوں نے فوجی ہیلی کاپٹر پر قبائلی علاقہ جات کا دورہ کیا۔ جنوبی وزیرستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کامیابیوں پر انہیں بریفنگ دی گئی۔ انڈین ایکسپریس میں جنوبی وزیرستان کے حوالے سے ایک تفصیلی تجزیہ بھی چھپا جس پر کافی لے دے جاری ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے کراچی میں کاروباری طبقے کے ساتھ طویل ملاقات میں دوستانہ لب ولہجہ اختیار کیا۔گفتگو میں وہ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے اور مستقبل کے امکانات سے مستفید ہونے کی وکالت کرتے رہے ۔ شنگائی تعاون کونسل میں بھی پاکستان اور بھارت کی افواج مشترکہ فوجی مشقوں میں شریک ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ یہ مشقیںپاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تناؤ کے ماحول کو بدلنے میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اسلام آباد میںالیکشن کی گہماگھمی کے باوجود محسوس ہوتاہے کہ کچھ بہت بڑا ہونے جارہاہے۔ الیکشن کے بعد خطے میں امن کے قیام اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ازسر نو کوشش کا آغازہونے والا ہے۔ فضا ہموار کی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا پر پاکستان کے خلاف جاری تبرہ بازی کا لیول کم ہوگیا ہے۔ کشمیریوں اور مزاحمت کاروں کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ بھی بڑی حد تک تھم چکا ہے۔ پاکستان میں آئی ایس پی آر کے سربراہ ہمیں بار بار باور کراتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ وہ کہتے ہیں: جنگ ناکام اور مذاکرات ہی کامیاب حکمت عملی ہے۔چند دن پہلے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے جنگ کوئی آپشن ہی نہیں۔ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ فرماتی ہیں: پاک بھارت تعلقات کی بحالی سے کشمیر یوں کو راحت ملتی ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کی عسکری قیادت پہل قدمی کررہی ہے۔کشمیری لیڈر شپ کی طرف سے اس پہل قدمی کی حوصلہ افزائی کرنے کی اطلاعات ہیں۔ تجربے سے انہوں نے سیکھا ہے کہ مذاکرات کی مخالفت کے بجائے اسے اپنے مطلب کا رخ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔البتہ وہ اپنے خدشات اور تحفظا ت کا اظہار بھی کرتی ہیں کیونکہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتاہے۔ کشمیرمیں جاری تشدد روکوانے اور بامقصد مذاکرات کے لیے جو بھی راستہ نکلتاہے اس کی تائید اور تحسین کی جانی چاہیے۔