اس وقت پاکستان اور بھارت اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ اور ایران آمنے سامنے کھڑے ہیں، اب وقت ہے کہ ہم ہروشیما اور ناگاساکی میں جلی ہوئی لاشوں کو یاد کریں۔ ہم اپنی تاریخی واقعات کی سالگروں کو 50 یا 100 کے بلاکس میں یاد کرنا پسند کرتے ہیں، اگر زور دیا جائے تو 25 ویں سالگرہ بھی قابل برداشت ہے2016 ء میں پہلی عالمگیر جنگ کی 100ویں سالگرہ منائی گئی اور اس سے پچھلے سال یعنی 2015 میں جنگ برطانیہ کو 75 سال مکمل ہوئے۔ آئندہ سال ہم دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے کی سالگرہ منائیں گے جو انسانی تاریخ کی اب تک کی پہلی اور واحد جوہری جنگ تھی۔رواں ہفتے ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی جانب سے ایٹمی حملے کی 74ویں سالگرہ منائی گئی تاہم یہ ہماری صحافتی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ میں ان دو جاپانی شہروں پر گزرنے والی قیامت کے حوالے سے مشکل سے ہی چند سرخیاں تلاش کر پایا۔لیکن میرے خیال سے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں ان ہولناک واقعات کو ہر ماہ ہی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ان حملوں میں ہلاک والے افراد کی تعداد کو دیکھ کر تو بظاہر لگتا ہے کہ آپ انہیں کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے لیکن ہم نے انہیں یاد نہیں رکھا، شاید آئندہ بھی نہ رکھ پائیں۔ان دو جاپانی شہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ ایک لاکھ 29 ہزار اور دو لاکھ 26 ہزار کے درمیان رہی ہوں گی۔ امریکہ نے اپنی پہلی رپورٹ میں ان ہلاکتوں کی تعداد ہیروشیما میں 66 ہزار اور ناگاساکی میں 39 ہزار بتائی تھی۔ لیکن سالوں بعد جاپانی حکام نے بتایا کہ صرف ہیروشیما میں مرنے والوں کی تعداد 202،118 تھی۔ اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو بعد میں تابکاری کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوئے تھے۔دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں حلب، موصل اور الرقہ شہروں میں دسیوں ہزار لوگ امریکی، روسی اور شامی حکومتوں کی بمباری سے لقمہ اجل بن گئے ہیں۔شاید آپ سوچیں کہ 1945 ء کے اعداد و شمار سے صرف وہیں کے لوگ متاثر ہوئے ہوں گے لیکن عالمی بحرانوں کی اس کتاب کے ہر باب میں بحیرء روم کے ساحلوں سے ہندوستان کی سرزمین تک ہر شخص کے لیے اہم پیغام ہے۔بھارت خود ایک جوہری طاقت ہے، اس کا ازلی دشمن پاکستان بھی، اور اسرائیل کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جس نے خفیہ طور پر ایٹمی ہتھاروں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ ان تینوں ممالک نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور یہ تینوں ہی کشمیر اور ایران کے مسئلے پر جنگ کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ایران ماضی میں ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہش مند رہا ہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کی جانب سے جاپان پر ایٹمی حملوں کے حوالے سے معافی مانگنے سے انکار کی مذمت کی تھی۔اپنے بیان میں ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا: ’امریکہ نے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا۔۔۔ برسوں بعد بھی وہ اس پر معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں۔ ایرانی قیادت اپنے روحانی رہنما کے اس بیان کو آگے لے کر چل رہی ہے جیسا کہ آیت اللہ کے جانشین علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں صرف ایک ہی جوہری مجرم ہے جو جعلی طور پر جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کا ڈراما کر رہا ہے۔ایران نے بھی این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں، اور اسے دو ایٹمی طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے لیے طے پائے گئے معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا ہے۔امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی نئی پابندیوں کے بعد ایران نے بھی اپنے جوہری پروگرام کو بڑھانے کا اشارہ دیا ہے جس کے بعد واشنگٹن اور یروشلم سے تہران کو جارحانہ جنگی دھمکیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔لفظ ’جوہری‘ محض ایک بے ضرر صفت نہیں ہے۔ ذرا ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہلاک ہونے والے جاپانیوں کی لاشوں کی تصاویر دیکھیے۔ ایران بذات خود بھی عراق جنگ کے دوران کیمیائی حملے کا سامنا کر چکا ہے جس کے فوجیوں اور عام عوام پر اس وقت امریکی حمایت یافتہ عراقی حکومت نے کیمیائی بم برسائے تھے۔ پھر سعودی عرب کو دیکھ لیں۔ درحقیقت مشرق وسطیٰ کا ہر ملک ایٹمی قوت بننا چاہتا ہے اس فہرست میں مصر بھی شامل ہے جو ایران کی طرح اس ٹیکنالوجی کو ’پْرامن‘ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔میرے خیال میں اسلام آباد اور اس کے پرائم خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے پے رول پر پاکستان اور افغانستان میں موجود اتنے اسلامی شدت پسند موجود ہیں جتنے پورے ایران میں بھی نہیں ہوں گے۔ہم عموماً ہروشیما اور ناگاساکی کے سانحات کو یاد رکھنے کے حوالے سے اکثر لاپرواہی برتتے رہے ہیں تو یہ اس خطے میں موجود جوہری خطرے سے آگاہی کے لیے ایک اچھا ہفتہ ہے۔موجودہ تمام تنازعات میں کم از کم ایک فریق جوہری ہتھاروں سے لیس ہے۔ بھارت اور پاکستان کے معاملے میں تو دونوں حریف ہی جوہری طاقتیں ہیں۔دیگر خطرناک معاملات میں امریکہ کا ایران کے ساتھ تنازع، ایران کا اسرائیل کے ساتھ، سعودی عرب کا ایران کے ساتھ اور ایران کی شام کے علاوہ تمام ملکوں سے دشمنی شامل ہے۔ ہاں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد روس کے ساتھ ایٹمی معاہدہ بھی یہ الزام لگاتے ہوئے ختم کر دیا تھا کہ ماسکو 34 ہزار میل کی رینج کے میزائلوں پر پابندی کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔روس کی وزارت خارجہ نے بھی امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔ لہذا یہی وقت ہے کہ ہم پرانی دستاویزی فلموں کا مشاہدہ کریں جن میں بی 29 طیارے سے ’لیٹل بوائے‘ ایٹمی بم کو ہروشیما کے مرکز پر گرتے اور پھر مشروم نما بادل کو آسمان کی جانب بلند ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ:دی انڈپینڈنٹ)