برصغیر میں جن لوگوں کو اپنے آس پاس طبل جنگ بجنے کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں یا جنہیں جنگ کے شعلے اپنی جانب لپکتے ہوئے نظر نہیں آرہے، انہیں گذشتہ دس سالوں میں دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو ایک دفعہ غور سے قرآن پاک کی تعلیمات اور سید الانبیاء ﷺ کی اس دور کے بارے میں کہی گئی احادیث کی روشنی میں ازسر ِنو اپنے حالات حاضرہ کو پرکھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج سے بیس سال قبل وہ لوگ جو عالمی سیاسی، معاشی اور عسکری حالات کو معروضی تناظر میں دیکھا کرتے تھے اور "بزعمِ خود "عالم دین ہونے کے باوجود رسول اکرم ﷺکی پیش گوئیوں والی احادیث کو جھوٹی، من گھڑت اور سیاسی و مسلکی مقاصد کے تحت گھڑی ہوئی قرار دیتے تھے، آج ان کے سامنے مسلم دنیا کے وہ تمام ممالک یعنی مصر، اردن، شام، عراق اور یمن بالکل ویسے ہی حالات کا شکار ہیں جیسا ان احادیث میں بتایا گیا ہے۔ دلیل یہ کہتی ہے کہ اگر آغاز بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے تو پھر انجام بھی ان پیشگوئیوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ تباہی نے جن قوموں پر عذاب بن کر نازل ہونا ہے وہ ہو کر رہے گی اور فتح مبین جن کے مقدر میں تحریر ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کیوں کہ ایسا سب کچھ مخبر صادق ﷺنے فرمایا جن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے "یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے" (النجم 4،3)۔ یہ سب کیا ہے، کیا ہم اس میدان جنگ میں اتر چکے ہیں، اب اس کا انجام کیسا ہوگا، یہ سوالات اس دنیا میں تین بڑے ابراہیمی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا ہمیشہ سے اہم ترین موضوع رہے ہیں اور ہر مذہب میں آنے والے پیغمبروں نے ان کا جواب "وحی الہی" سے دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ تین ہزار سالوں سے اللہ کی جانب سے اس قرب قیامت یعنی آخر الزماں کے بارے میں خصوصی علم انبیاء کو دیا جانا شروع کیا گیا اور سید الانبیاء ؐ تک اس دور فتن کے بارے میں وہ سب کچھ کھول کر بتا دیا گیا جس کی آج کے دور میں موجود انسانوں کی خصوصی رہنمائی کے لیے ضرورت تھی۔ آخر الزمان کے اس علم کا آغاز 740 قبل مسیح میں پیدا ہونے والے لیسعیاہ (LSAIAH) سے ہوتا ہے۔ وہ 681 قبل مسیح تک زندہ رہے اور ان کی کتاب یا صحیفہء آسمانی چھیاسٹھ (66) پاروں پر مشتمل ہے۔ ان کی نبوت کا زمانہ عزیاہ، یوتام، آخز اور حزقیاہ کے ادوار پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کے آخری چند سال مسنہ کے دور میں بھی گزرے۔ اسی دوران ان کے بدن کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ ان کی کتاب کے آخری گیارہ پارے، پارہ 56 کی آیت نمبر 9 سے لیکر پارہ 66 کی آخری آیت تک آخر الزمان کی پیشگوئیوں سے متعلق ہیں ،جن کا عنوان ہے "خدا کی عالمگیر بادشاہی کا قیام"۔ ان کا زمانہ وہ تھا جب بنی اسرائیل پر بابل کے حکمران بخت نصر نے حملہ کرکے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ہیکل سلیمانی تباہ کر دیا تھا۔تمام اہل اور صحت مند افراد کو غلام بناکر بابل لے جایا گیا تھا اور وہ وہاں بنی اسرائیل بحیثیت ایک قوم اکٹھے رہتے تھے، مگر غلامانہ زندگی گزار رہے تھے۔ اسی غلامی کے بارے میں قرآن پاک نے بتایا "اور ہم نے کتاب میں فیصلہ کرکے بنی اسرائیل کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کا مظاہرہ کرو گے۔ چنانچہ جب ان دو واقعات میں سے پہلا واقعہ پیش آیا تو ہم نے تمہارے سروں پر اپنے ایسے بندے مسلط کر دیے جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے شہروں میں گھس کر پھیل گئے" (بنی اسرائیل 5,4)۔ اس دور میں لیسعیاہ پیغمبر بشارتوں اور خوشخبریوں کی باتیں کرتے تھے۔ ان کی تمام پیش گوئیاں آج بھی انجیل مقدس اور یہودیوں کی مقدس کتابوں میں محفوظ ہیں۔ ان پیشگوئیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک دن بابل کی غلامی سے نجات ملے گی، وہ واپس بنی اسرائیل میں جا کر آباد ہو جائیں گے اور وہاں انکو اقتدار حاصل ہوگا۔ قرآن پاک نے بھی اس دوبارہ آبادکاری کی تصدیق اسی ترتیب سے بیان کی ہے۔"پھر ہم نے تمہیں یہ موقع دیا کہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ، اور تمہارے مال و دولت اور اولاد میں اضافہ کیا اور تمہاری نفری پہلے سے زیادہ بڑھا دی" (بنی اسرائیل 6)۔ لیکن لیسعیاہ پیغمبر نے یہ پیشگوئی بھی کی اللہ تمہارے درمیان ایک مسیح پیدا کرے گا جو یروشلم میں تخت داؤد سے ایک ایسی حکومت قائم کرے گا جو عالمگیر بادشاہت ہو گی۔ یہودی روایات اور عبرانی کتب ِمقدسہ میں لیسعیاہ بن آموز کا ذکر انتہائی تفصیل سے ملتا ہے۔ حضرت لیسعیاہ علیہ السلام کے عہد سے لے کر اب تک تمام یہودی اس بات پر مکمل ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ایسا مسیحا ضرور آئے گا جو یروشلم کے اس ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرکے وہاں سے پوری دنیا پر ایک عالمگیر حکومت قائم کرے گا۔ پیش گوئیوں کے مطابق ،یہودی یروشلم میں دوبارہ آباد ہو چکے تو سیدنا عیسیٰؑ ابن مریم تشریف لے آئے اور انہیں ان کے معجزات کی وجہ سے یہودیوں کی اکثریت نے ماننا شروع کر دیا۔ معجزات بھی ایسے تھے کہ جن کا انکار ممکن نہ تھا۔ بغیر باپ کے انتہائی نیک و پارسا خاتون حضرت مریم کے گھر پیدا ہونا، کوڑھیوں کو ہاتھ پھیر کر تندرست کر دینا، مادر زاد اندھوں کو بینائی بخشنا اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دینا۔ عام لوگ ان پر ایمان لاتے تھے اور ان کے وعظ میں جنہیں یروشلم کی اس پہاڑی کے وعظ کہتے ہیں، جہاں سے رسول اکرم ﷺ معراج پر روانہ ہوئے تھے، ان میں جوق در جوق شریک ہوتے۔لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب ان یہودی علماء و صوفیاء کے خلاف جنگ شروع کی جو مقدس ہیکل میں بیٹھ کر سود کا کاروبار کرتے تھے تو ان کے علماء (ربائی) اور ان کے صوفیاء (احبار و رہبان) نے ان کا انکار کردیا اور ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگانے لگے کہ نعوذ باللہ یہ تو ایک ناجائز بچہ ہے، اور اس پر شیاطین غالب ہیں۔ یہودیوں کے علماء و صوفیاء نے ایک چال چلی کہ اگر ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کسی طریقے سے ایسی موت دے سکے جو پورے بنی اسرائیل میں ذلت کی موت سمجھی جاتی ہے تو پھر عوام یقین کرلیں گے کہ یہ یقینا وہ مسیحا نہیں ہے جس کی بشارت لیسعیاہ پیغمبر نے دی تھی، کیونکہ انکی موت یہ ثابت کر دے گی کہ یہ وہ مسیحا نہیں جو عالمگیر سلطنت قائم کرے گا۔ اس کے بعد کی تاریخ یہودی اور عیسائی روایت میں روز روشن کی طرح محفوظ ہے کہ کیسے انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پکڑ کر رومن گورنر کے حوالے کیا اور ان کی موت کی درخوست کی اور بالآخر انہیں صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر قران پاک کی سورہ النساء کی آیت کے نزول تک تمام یہودی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام جو صلیب پر لٹکا دیے گئے تھے وہ یقینا نہ تو پیغمبر تھے اور نہ ہی وہ والا مسیحا تھے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یوں چھ سوسال بعد قرآن پاک میں اللہ نے یہ راز کھولا اور ان کے اس عقیدے اور تصور کا انکار کر دیا۔ فرمایا "انھوں نے کہا ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم ؑکو قتل کر دیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰؑ کو قتل کیا تھا اور نہ انہیں سولی دے پائے تھے، انہیں شبے میں ڈال دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا وہ شک کا شکار ہیں اور انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر پائے بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا اور اللہ بڑا صاحب اقتدار اور حکمت والا ہے" (النساء 156 تا 159) سیدنا عیسیٰؑ ابن مریم ؑکی آخرالزماں میں واپسی اور یروشلم سے عالمگیر حکومت کا قیام ہی اس دور ِفتن کی آخری منزل ہے جس میں یہ دنیا داخل ہو چکی ہے ( باقی آئندہ)