دوسری طرف اگست 2019کو جموں و کشمیر میں کئے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پوری نہیں ہوسکی۔ ان اقدامات کے بعد پاکستان نے دنیا بھر میں سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے اور بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دیکراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دیکر بھارت پر دباوٗ بنانے کی کوشش کی۔ مگر عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابط جنگ سے خائف تو ہے، مگر تنازعہ کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گذارہ کرنے کیلئے دونوں ملکوں کو آمادہ کروانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے۔ وہ ان ممالک کو ان خطرات سے بھی آگاہ کروانے میں کامیاب ہوگیا کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہیں کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اڈہ بنا کر اسکو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔ بھارت کا مارکیٹ، چین کے خلاف خطے میں اسکا علاقائی پولیس مین کا رول اور عالمی دہشت گردی سے جنگ مغربی ممالک کی عملی سیاست اور ا سٹریٹیجک پالیسی کا حصہ ہیں۔ بقول تجزیہ کار اور مصنف حیپی مون جیکب اس فائر بندی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملکوں کا نظام گرینڈ اسٹینڈنگ سے نہیں چلایا جا سکتا ہے، بلکہ حقیقت پسندی اور سمجھوتے اس کا ایک عملی حصہ ہیںاور دونوں ممالک کو اس کا ادراک ہوگیاہے۔ ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں گی۔ مگر خاص طور پر 2008، 2010اور پھر 2016میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام زیا دہ دیر تک اب تنازعہ کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ 2003اور 2021کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر 2003میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک قدم کا آغاز ہے، جو مسئلہ کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اسکے نتیجے میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ ان کا یہ دورہ بعد میں صدر پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولہ کی بنیاد بن گیااور اسکے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس او ر تجارت کیلئے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ 2003 کی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہائی بھی کروانا فی الحال ناممکن لگ رہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟2014سے جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ، تو انہوں نے پارٹی کے دیگر راہنماوٗں و وزیروں کیلئے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کیلئے 70سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب انکی اپنی عمر 70سال سے تجاوز کر رہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب انکو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جبکہ انہوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو انکی عمر کی وجہ سے ریٹائرڈ کروایا؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کا وعدے کا ایفا کر سکے گا؟نئی دہلی میں تو اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور چناب ویلی میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادی کشمیر کے ساتھ رابط ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادی کشمیر سے الگ کرکے بدھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادی کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ وادی کشمیر کی آبادی جموں سے 10لاکھ زیادہ ہے، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبہ کے مطابق ہونی چاہئے۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی معیاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68,88,475ہے، جبکہ جموں میں 53,78,538نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ 26,293مربع کلومیٹر ہے، جبکہ وادی کشمیر کا رقبہ 15,948مربع کلومیٹر ہے۔ خیر بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دور رہتے ہیں، اسلئے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کی علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیرمٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، تو بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے انکوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟یہ سوال تا حال جواب کا منتظر ہے۔امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے اسکو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہو۔