دنیابھر کو اسلحہ فروخت کرنے والے جب امن کی بات کریں تو کسے ہضم ہوگی؟گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟روسی خبر رساں ایجنسی نے کیا ایمان افروز تبصرہ کیا ہے کہ جنگیں اسلحے سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ فی الوقت تو یہ بات حالیہ پاک بھارت فضائی جھڑپ کے تناظر میں کہی گئی ہے اور بھارت کو فرانسیسی رافیل طیاروں کی خریداری پہ متنبہ بھی کردیا گیا ہے جو ستمبر میں متوقع ہوگی اور جس کے متعلق مودی دہائیاں دے چکے ہیں کہ اگر یہ سودا پٹ جاتا تو یوں ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ روس سے آنے والے اس مومنانہ تبصرے کے پیچھے سوویت یونین کی شکست وریخت لاشعور میں نہ چھپی ہوئی ہو۔ یہ حقیقت پہلے روس اور اب امریکہ سے بہتر کون جانتا ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں۔امریکہ تو ویت نام میں بھی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرچکا ہے۔اب افغانستان میں دنیا بھر کی فوجیں اتارنے اور آخری حربے کے طور پہ میدان جنگ اسرائیل کے حوالے کرنے کے باوجود اسے خوب علم ہے کہ جنگیں کیسے لڑی جاتی ہیں۔اس کے باوجود دھندہ تو دھندہ ہے اور کافی زیادہ گندا ہے۔ جذبہ بے شک خریدا اور بیچا نہیں جاسکتا لیکن اسلحہ تو بنایا اور بیچا جاسکتا ہے ۔مومن بے شک بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے لیکن اسی مومن کو گھوڑے تیار رکھنے کا حکم بھی تو ہے جو ہماری مسلح افواج کا سلوگن بھی ہے۔ حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں مودی کا سرعام اعتراف شکست حیران کن ہے۔ اگر کسی قوم کا سربراہ یوں کھلے عام اعلان کرے کہ اگر رافیل طیاروں کی خریداری میں ، جس میں مبینہ طورپہ اس کا کمیشن شامل ہے،تاخیر نہ ہوتی تو آج بھارت کو ذلت نہ اٹھانی پڑتی ، تو اس سے زیادہ واضح اعلان شکست کیا ہوگا؟اس کے بعد تو بھارتی مسلح افواج اور میڈیا کے تمام پروپیگنڈے کو اصولاً دم توڑ دینا چاہئے۔ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر رافیل طیارے ستمبر میں خریدے جانے تھے اور انہیں حالیہ جنگ میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا ہی کرنا تھا تو اس جلد بازی کی کیا ضرورت تھی۔امریکی طرز کا حملہ کرنے کی ایسی کیا جلدی تھی کہ اس ڈیل کا انتظار نہ کیا گیا اور خوامخواہ تیس سال پرانے مگ 21 اور سخوئی 30کو ذلیل کرواکے روس کو مشتعل کیا گیا کہ اس کی خبر رساں ایجنسی کو مذکورہ بالا مومنانہ طعنہ دینے کی ضرورت آن پڑی۔اس جھڑپ کے آغاز میں بھارت نے اپنے سخوئی 30 کے ذریعہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرانے کا دعوی بھی کیا جس کا لاک ہیڈ مارٹن نے بہت برا منایا جو ایف سولہ بناتی ہے ۔اگرچہ بھارت اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا یعنی تباہ شدہ طیارے کا کوئی ملبہ وغیرہ کیونکہ نہ وہ استعمال ہوا نہ ہی تباہ ہوا کیونکہ پاکستان نے تو اس جھڑپ میں ایف سولہ استعمال ہی نہیں کئے۔ اس نے جے ایف تھنڈر استعمال کیا جو وہ چین کے ساتھ مل کر مقامی طور پہ تیار کرتا ہے۔اس لحاظ سے یہ ایف سولہ پہ جے ایف تھنڈر کی فوقیت کا بہترین مظاہرہ تھا جس کے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں اور سری لنکا، ملائشیا، برما اور کچھ اور ممالک اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔یہ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے بھی نفع بخش ثابت ہوگی لیکن ہنوز دلی دور است۔ لاک ہیڈ ایف سولہ کا اپ گریڈ ایف اکیس بھارت کو فروخت کرچکی ہے جبکہ روسی سخوئی اپنا ایس یو 30 بھارت کو جبکہ ایس یو 35 پاکستان کو فروخت کررہی ہے۔سوال تو یہ ہے کہ بھارت اپنے تیس سال پرانے مگ اکیس جو نوے کی دہائی میں اپ گریڈ ہوئے تھے اس حملے میں کیوں استعمال کررہا تھا؟جبکہ بھارت دعوے کے مطابق مد مقابل پاکستانی ایف سولہ (جو کہ استعمال نہیں ہوئے)2005ء میں امریکہ سے خریدے گئے ۔ آزاد میڈیا رپورٹوں کے مطابق ستائیس فروری کی جھڑپ میں بھارت کی فضائی فارمیشن میں آٹھ طیارے شامل تھے جن میں چار ایس یو 30،دو اپ گریڈڈ میراج اور دو مگ اکیس شامل تھے جبکہ پاکستان کی طرف سے سولہ طیاروں میں سے چار ایف سولہ بھی شامل تھے جس میں سے ایک کی تباہی کا ثبوت بھی بھارتی مسلح افواج کے سربراہ نہ دے سکے جبکہ ان کے سربراہ اعظم مودی نے تو کھلے عام اعتراف شکست کرلیا۔اس کا فائدہ لاک ہیڈ مارٹن کوہوا جو پہلے اپنے طیارے کی تباہی کے بھارتی دعوے پہ برافروختہ تھی۔ بعد ازاں پاکستان کے ایف سولہ کی عدم شمولیت کی یقین دہانی سے بھی اس نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنے جے ایف سترہ تھنڈر کی بہترین پبلسٹی بھی کرڈالی۔ اب بھارت اپنے پرانے مگ طیاروں کو جنہوں نے اسے ذلیل کرکے رکھ دیا، تبدیل کرنے کے لئے اٹھارہ بلین ڈالر کے اخراجات کرنے والا ہے جن سے وہ نئے 115 طیارے خریدے گا جن میں رافیل بھی شامل ہیں اور و ہ ایس یو 35 بھی جو روس پہلے پاکستان کو فروخت کرچکا ہے اور ہاں لاک ہیڈ مارٹن کے اپ گریڈڈ ایف سولہ یعنی ایف اکیس اور بوئنگ کے ایف اے اٹھارہ بھی۔امریکہ اپنے رائے ساز اداروں کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ بھارت کو اب روسی ساختہ نہیں امریکی ساختہ طیاروں اور ایکو سسٹم کی ضرورت ہے کیونکہ آئندہ کسی بھی باقاعدہ پاک بھارت جنگ میں روسی ساختہ طیارے کاغذ کے جہاز ثابت ہونگے جبکہ روسی تھنک ٹینک یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ بھارت کی فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری کچھ خاص فائدہ مند نہ ہوگی۔فرانس کی ڈیسالٹ کمپنی (جو میراج بھی بناتی ہے )کے بنائے رافیل ایک تو صرف پینتیس کی تعداد میں ہونگے جبکہ انہیں اڑانے کی تربیت میں پائلٹوں کو وقت درکار ہوگا اور کئی سال بعد ہی یہ بیڑہ اس قابل ہوگا کہ کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے۔ تو کیوں نہ بھارت آزمودہ سخوئی ایس یو تیس کا اپ گریڈڈ ایس یو پینتیس خریدے جو پینسٹھ کی جنگ سے بھارت کا دفاع کرتا آرہا ہے اور جسے اڑانے کی تربیت میں وقت بھی ضائع نہ ہوگا ۔رہی بات مگ اکیس کی پاکستان کے ہاتھوں تباہی کی، تو ہم آپ کو بتا چکے کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہے اور مومن کا اس میدان میں کیا مقابلہ۔کیا آپ کو علم ہے کہ سخوئی ایس یو تیس پینسٹھ کی جنگ کے مقابلے میں سن اکہتر کی جنگ میں بھرپور طریقے سے استعمال ہوئے تھے تو اب بھی وہ آپ کے کام آئیں گے، رافیل میں مودی کے کمیشن کے سوا کیا دھرا ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ۔اب فیصلہ بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے کہ مودی کا کمیشن زیادہ ضروری ہے اورستمبر تک جنگ ٹالنی ہے یا جنگ کی صورت میں منہ کی کھانی اور ذلیل ہونا ہے۔