وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جو تبدیلی نظر آئی ہے یہ تبدیلی بڑی واضح ہے۔ آج کے سیاسی منظرنامے پر ذرا نظر ڈالیں تو نواز، زرداری اور مولانا فضل الرحمن یہ سب لوگ ایک پیج پر نظر آئیں گے۔ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ طویل عرصہ تک ان کا اقتدار کرپشن سے بھرپور تھا اختیارات کے ناجائز استعمال سے قومی اداروں کو تباہ کر گیا ہے۔ پورے ملک کی بیورو کریسی میں ان کی باقیات بدستور اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ کم از کم یہ تبدیلی تو آ گئی ہے کہ ایک تیسری قوت پی ٹی آئی کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ہے مگر یہ قوت ابھی تک اپنے قدم جما نہیں پائی ہے۔ اس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو کہ اس پاک دھرتی پر بھاری بوجھ ہیں یعنی ہائوس آف زرداری، ہائوس آف شریف اور ہائوس آف مولانا فضل الرحمن۔۔۔ یہ سب پوری قوم پر بھاری ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ملکی خزانہ لوٹ کر بھی یہ لوگ اپنے آپ کو صادق و امین کہتے ہیں۔ جن چند سیاسی خاندانوں نے دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹی ان میں ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف کا اہم کردار ہے۔ قومی دولت لوٹی گئی اور ساتھ ساتھ اقتدار میں رہنے کے لیے پورے نظام کو برباد کیا گیا۔ قومی اداروں میں من پسند بیورو کریٹس کو اعلیٰ عہدوں پر نہ صرف تعینات کیا گیا بلکہ ان تمام افسران کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کرپٹ بنایا گیا۔ اعلیٰ افسران کی پاکستان سے باہر جائیدادیں اور اثاثے ریکارڈ سطح پر ہیں۔ اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور پھر ان ہی نسلوں کو پاکستان میں عوامی نمائندوں کے طور پر سیاست میںمتعارف کروا کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دی جاتی ہے۔ یہ مافیا کو جو کہ پورے نظام کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے چند سال میں ختم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس پورے نظام کو بدلنے کے لیے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر اصلاحات کے علاوہ سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے عمران خان جو کہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف ہیں ان کی ترجیحات بھی قومی مفادات میں ہیں۔ اب آنے والے دنوں میں عمران خان کو یکسر طور پر اپنی پوری ٹیم کو بدلنے کی ضرورت بھی ہے اور خاص طور پر اپنے ترجمانوں کی تعداد بھی کم کرنا ہو گی۔ اپنے وزرائ، مشیروں اور دیگر قومی اداروں میں ان لوگوں کو فعال بنانا ہو گا جو کہ واقعی صاف ستھرے ماضی سے جانے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہیں لیکن اب ان کا اصلی امتحان شروع ہو گیا ہے۔ آنے والے چند ماہ انتہائی اہم ہیں خطے میں صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ اندرون ملک غیر ملکی ہاتھ سرگرم عمل ہیں بے شمار حسین حقانی بیرون ملک پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور وہ مختلف قوتوں کے آلۂ کار ہیں۔ لندن میں میاں نواز شریف اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار جو تمام چالوں کے ماہر ہیں کہ کس طرح کس اعلیٰ افسر کو خریدنا ہے اور پھر وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ فلاں اعلیٰ افسر یا جج کی سالانہ آمدن کتنی ہے؟ اس کی پنشن کتنی ہو گی؟ وہ ان لوگوں کو خرید لیتے ہیں یہ سب کچھ لندن میں ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ قلم قبیلے کے لوگ اور دانشور ، ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض صحافی حضرات بھی اس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں ۔ سابقہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور امریکی مفادات کی خاطر جو کچھ کیا اس کی ایک جھلک Steve Collکی کتاب Ghost warsکے صفحہ نمبر 439سے لے کر 446تک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ویسے تو اس کتاب میں بے شمار ایسے انکشافات ہیں جو کہ ہائوس آف شریف کی ہوس اقتدار کو بے نقاب کرتے ہیں مگر اس میں میاں نواز شریف کے بطور وزیر اعظم امریکہ کے سرکاری دورے کا حال بڑا دلچسپ ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ میاں صاحب دسمبر 1998ء میں امریکہ تشریف لے جاتے ہیں ان کے vip وفد میں امریکی حکام کو پیشگی بتائے بغیر جنرل ضیاء الدین بٹ کو شامل کر لیا جاتا ہے اور امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے وقت ان کو بھی اپنے وفد میں شامل کر لیا جاتا ہے پھر oval Officeمیں 2دسمبر 1998ء کو جو باضابطہ مذاکرات ہوتے ہیں تو میاں نواز شریف تمام سفارتی پروٹوکول کو نظرانداز کر کے امریکی حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی ملاقات ون آن ون صدر بل کلنٹن سے کروائی جائے۔ 20منٹ پر محیط یہ ملاقات کروائی جاتی ہے۔ اس ملاقات میں میاں صاحب نے امریکی صدر کو کہا کہ ہمیں سی آئی اے کے خصوصی کمانڈوں دستے فراہم کیے جائیں جو کہ پاکستان کے کمانڈوز کو تربیت دیں تا کہ یہ کمانڈو افغانستان جا کر اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کر سکیں۔ لہٰذا امریکی حکام نے سی آئی کے یہ خصوصی کمانڈو پاکستان کو فراہم کر دیئے مگر بعد میں ان خصوصی کمانڈو گروپ کو وزیر اعظم پاکستان کی کمان میں دینے کی بات کی گئی کہا یہ گیا کہ اگر میاں نواز شریف کو افواج پاکستان سے یہ خدشہ ہوا کہ ان کا اقتدار ختم کرنے کی کوششیں کریں گی تو یہ خصوصی دستہ مزاحمت کرے گا اور وزیر اعظم کی حفاظت پر مامور رہے گا۔ میاں نواز شریف کے اقتدار کے تینوں ادوار ہمیشہ بھارتی مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کس طرح جاتی امرا آئے؟ اور پھر اس نجی ملاقات میں بھارتی ’’را‘‘ کا سربراہ بھی برابر موجود رہا جبکہ پاکستان کے قومی سلامتی کے نمائندے اور پاکستانی وزارت خارجہ کا کوئی افسر بھی جاتی امرا میں موجود نہ تھا۔ ہائوس آف زرداری کا حال یہ ہے کہ جب آصف علی زرداری بطور صدر پاکستان 28اگست 2009ء کو برطانیہ کے سرکاری دورے پر لندن تشریف لائے تو انہوں نے برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون سے ملاقات میں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر جا کر ملاقات کروائی اور بلاول زرداری کو پاکستان کے مستقبل میں ہونے والے وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروایا۔ اسی طرح آصف علی زرداری جب امریکہ سرکاری دورے پر تشریف لے گئے تو صدر بارک اوباما سے بھی وائٹ ہائوس میں بلاول زرداری کو خاص طور پر متعارف کروایا کہ یہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ذرا اندازہ لگا لیں کہ ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری اپنے اقتدار اور اپنے بچوں کو سیاسی طور پر بیرون ملک سربراہان مملکت سے متعارف کروانے میں کس قدر دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ قومی خزانہ بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور پھر اپنے بچوں کو اپنی سیاسی پارٹیوں میں کلیدی عہدہ دے کر پارٹیوں پر مسلط کر دیا۔ آج بلاول زرداری اور مریم نواز جس مشن پر ہیں وہ صرف اور صرف اپنے خاندانوں کی کرپشن کی پردہ پوشی اور احتساب کے عمل سے آصف علی زرداری اور شریف برادران کو بچانا ہے۔ اس مشن میں مولانا فضل الرحمن سہولت کار کے طور پر برابر کے شریک ہیں ہماری پاک دھرتی ہی ہے کہ جو ان کا بوجھ برداشت کر رہی ہے واقعی یہ سب پر بھاری ہیں۔