سری لنکن وزیراعظم مہندرا راجہ پکسے کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کا دورہ کئی لحاظ سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کا عکس وزیر اعظم کے استقبال اور سری لنکا میں مختلف تقریبات سے خطاب کے دوران دیکھا گیا۔سری لنکا اور پاکستان سارک تنظیم کے اہم اراکین ہیں‘ دونوں نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے‘ دونوں کو بھارت کی سازشوں کا سامنا رہا‘ دونوں چین کے تعاون سے خطے میں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا نیا ڈیزائن ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی دفاعی تعلقات میں بہتری کے امکانات پر نئے سرے سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر دونوں دوست ممالک کے درمیان پانچ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا کے مابین آزادانہ تجارتی فریم ورک کو حتمی شکل دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ دو روزہ دورے کے دوسرے روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں پاکستانی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے تنازع کشمیر کی بات کی اور چین کی مدد سے خطے میں ترقی کی اہمیت بتائی۔ پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات میں جس قدر گرم جوشی اور قربت کا احساس رہا ہے اس کا تقاضا تھا کہ دونوں ممالک باہمی مفادات کو تعاون کی عملی صورت میں ڈھال چکے ہوتے۔ یہ تعاون فروغ کیوں نہ پا سکا۔ یہ سوال اب اہم نہیں رہا۔ اہم یہ بات ہے کہ دونوں طرف تعلقات میں بہتری کی خواہش کو جلد از جلد کسی نظام کا حصہ بنالیا جائے۔ سن 2005 ء میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تجارت 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی جو 2018 میں بڑھ کر 50 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہوگئی۔ تجارت کے توازن کی بات کی جائے تو یہ ہمیشہ پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ پاکستان کی برآمدات سری لنکا سے زیادہ رہی ہیں۔سری لنکا سے پاکستان کو برآمد کی جانے والی اشیا میں خشک ناریل، ایم ڈی ایف بورڈ، سپاری یعنی ڈلی، چائے، کپڑے، صنعتی اور سرجیکل دستانے، کریپ اور شیٹ ربڑ، ڈبے، بکسے، بیگ، ناریل کا تیل، بنے ہوئے کپڑے اور جانوروں کے چارے شامل ہیں۔ان میں سے خاص طور پر سپاری یعنی ڈلی خبروں میں زیادہ رہی ہے۔ بھارتکے ساتھ کشیدگی کے سبب پاکستان میں انڈین سپاری کی برآمدات میں خلل پڑا تھا۔ پاکستان میں سپاری کی فراہمی اب سری لنکا سے ہوتی ہے۔سری لنکا سے پاکستان میں چائے کی برآمدات بھی بڑھی ہیں لیکن پاکستان کی چائے کی مارکیٹ پر زیادہ تر کینیا کا غلبہ ہے۔ پاکستان اور سری لنکا کے عسکری تعلقات لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے ساتھ جنگ کے دوران مضبوط ہوئے۔ اس وقت پاکستان نے ایل ٹی ٹی ای سے مقابلہ کرنے کے لیے سری لنکا کی فوج کو اسلحہ فراہم کیا ۔ 1971 ء کیدنوں میں بھارت نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میںجھگڑوں کے دوران اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت سری لنکا نے مغربی پاکستان کو فضائی راستہ فراہم کیا ۔پاکستان سری لنکا کو بنیادی چھوٹے ہتھیار سپلائی کرتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی رہی ہیں۔ مارچ 2009 ء میں لاہور میں کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پردہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان میں طویل عرصہ تک بین الاقوامی میچز نہ ہو سکے ۔ بعد ازاںسری لنکن کرکٹ بورڈ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کھلاڑیوں کی ایما پر چھوڑ دیا تھا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے کے موقع پر سری لنکن میڈیا پر پاکستان کیساتھ خوشگوار تعلقات کے چرچے ہیں۔سری لنکن ذرائع ابلاغ کے مطابق سری لنکا کے موجودہ صدر راجا پکسے نے بطور فوجی افسر پاکستان میں تربیت حاصل کی۔ انہوں نے صدر بننے کے بعد بھی پاکستان سے انتہائی قریبی تعلقات استوار رکھے۔خانہ جنگی کے دوران پابندیوں کے باوجود پاکستان نے سری لنکا کی مدد کی۔ پاکستان نے انٹیلی جنس اور جدید جنگی ساز وسامان کی فراہمی جاری رکھی۔ سری لنکن میڈیا میں پاکستان کی دیرینہ دوستی کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) نے سری لنکن فضائیہ کے پائلٹوں کو جدید خطوط پر تربیت دی ہے۔ سری لنکا کے فوجی افسران اب بھی پاکستانی اداروں سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔رپورٹ میں اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کیا گیا ہے کہ چین اور پاکستان سے تعلق کے باعث سری لنکا اپنی خود مختاری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے مقبول تعلقات کرکٹ کے ذریعے قائم ہیں۔ پاکستان میں سری لنکن کھلاڑیوں کی پذیرائی ہے۔ سری لنکا سیاحتی لحاظ سے پسندیدہ ممالک میں سے ایک ہے۔ بہت سے پاکستانی سیاحت کے لیے اس حسین ملک جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں دونوں ملک مشترکہ فلمسازی میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان بطور کھلاڑی سری لنکا میں مقبول ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت کا ایک دوسرے کے ہاں مثبت تشخص رکھنا ریاستی تعلقات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ باہمی تجارت کو فروغ دینے‘ دفاعی تعلقات میں اضافہ اور سیاحتی و ثقافتی شعبے میں ایک دوسرے سے تعاون بڑھا کر بڑی شراکت داری کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔یہ دورہ تاخیر سے ہوا جس سے بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو گیا ۔سی پیک اور گوادر تجارتی دنیا کو پاکستان سے جوڑنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔سری لنکا کے ساتھ تعلقات میں گہرائی سے پاکستان کے تزویراتی اور معاشی مفادات کا حصول آسان ہو سکتا ہے ۔