برادر ملک سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے 7معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ سعودی عرب توانائی‘ معدنی ذخائر‘ پیٹرو کیمیکل‘ پاک سعودی ریفائنری‘ ترقیاتی منصوبوں‘ نوجوانوں کی دلچسپی سمیت کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے پاکستانی معیشت کی بحالی میں مدد دے گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر مملکت عارف علوی ‘ وزیر اعظم عمران خان‘ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ وزیر اعظم کے عشائیے اور صدر مملکت کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ سعودی ولی عہد کے دورے کی معاشی اہمیت پر زیادہ بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کے لئے 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک غیر معمولی مدد ہے جس پر پاکستانی قوم ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مشکور ہے۔ اس دورے اور سرمایہ کاری معاہدوں کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاک سعودیہ تعلقات میں گرمجوشی واپس لانے میں دونوں ممالک کی قیادت کا خلوص نیت بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات سات عشروں پر محیط ہیں۔ روائتی برادرانہ تعلقات اس وقت سٹریٹجک اور گرمجوش تعلقات میں ڈھل گئے جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے مسلم امہ کو متحد کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس اس سمت بڑھنے کا ذریعہ قرار دی گئی۔ بدقسمتی سے عالمی طاقتوں نے اس منصوبے کو سبوتاژ کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دونوں برادر ملکوں نے افغانستان میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھا۔ پاکستان کے 16لاکھ سے زائد محنت کش سعودی عرب میں مزدوری کرتے ہیں۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جہاں سے سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان آتا ہے۔ جدید دور میں دو ریاستوں کے تعلقات کو جن باہمی مفادات پر استوار کیا جاتا ہے ان میں کچھ مدت کے بعد تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں ہمارے جو باہمی مفادات تھے وہ اسی اور نوے کے عشرے میں تبدیل ہو گئے۔ افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کو دہشت گردی کی اس تعریف نے تشویش زدہ کردیا جس کا مقصد ہر امریکہ مخالف کو شدت پسندی کے اظہار پر دہشت گرد قرار دینا تھا۔ بین الاقوامی ادارے اس نئی صورت حال میں ان ممالک کو مختلف طریقوں سے خوفزدہ کرتے رہے جہاں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے مفادات تھے۔ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات اس وجہ سے بھی سست روی کا شکار ہوئے کہ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی قیادت نئی صورت حال سے ہم آہنگ منصوبہ بندی تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ یہ تاثر دیتی رہی کہ پاک سعودیہ تعلقات دراصل نواز سعودیہ تعلقات ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان کی رہائی اور پھر سعودی عرب میں قیام اس تاثر کو مستحکم کرنے کے لئے کافی تھے۔ میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم پاکستان کو بطور تحفہ ارسال کی۔ اس دوران سعودی عرب میں مقیم پاکستانی محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ ہونے لگا۔ قانون نافذ کرنے والے سعودی اداروں نے پاکستانی محنت کشوں پر سختی بڑھا دی۔ معاوضوں میں کمی یا روکے جانے کی شکایات آنے لگیں مگر سابق حکومت نے اپنے اچھے تعلقات کو زنگ آلود رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کشوں‘ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری اور سٹریٹجک تعلقات کے امور پر جس طرح بات کی وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پاک سعودی تعلقات کو آئندہ ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔ سرمایہ کاری کے نئے منصوبوں سے صرف سرمایہ پاکستان نہیں آئے گا بلکہ مستقبل کی ضروریات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اور روزگار کی سہولیات بھی پیدا ہوں گی۔ بلا شبہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 20ارب ڈالر سرمایہ کاری معاہدے دوستی کے رابطوں کو ریاستی مفادات میں ڈھالنے کی ایک قابل ستائش کوشش کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سعودی ولی عہد نے اپنے محبت بھرے خیالات سے پاکستانی عوام کو متاثر کیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی جو تصویر بنائی تھی شہزادہ محمد بن سلمان اس سے کافی مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر 2107پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر تصور کیا جائے۔ کسی دوست ملک کے لئے ایک ولی عہد کا یہ بیان ان کی کشادہ دلی کا مظہر ہے۔ صدر مملکت نے شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان عطا کیا جو سعودی ولی عہد کی پاکستان اور اہل پاکستان کے لئے محبت کا گویا اعتراف ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دو طرفہ تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ عالمی بساط پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال میں یہ تعاون جنوب مشرقی ایشیا سے مغربی ایشیا اور پھر وسط ایشیا کی طرف بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ منڈیاں جہاں توانائی کے ذرائع موجود ہیں پاکستان کی رسائی میں آ سکتی ہیں۔ پاکستان سے تجارتی مال دنیا کے بہت بڑے علاقے تک پہنچایا جا سکے گا۔ پاک سعودیہ تعلقات جو اب حج عمرہ اور تارکین وطن محنت کشوں کی حد تک رہ گئے ہیں ان تعلقات کا عمل دخل اقتصادی سیاسی و دفاعی شعبوں تک متحرک دکھائی دے گا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک خوشگوار تاثر چھوڑ کرسعودی عرب لوٹے ہیں۔ یہ موقع تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں بدلتی ریاستی حکمت عملی کا ساتھ دیں۔