وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔معاشی بحران کی کیفیت سے دوچار پاکستان کے لئے ہر دوست ملک سے رابطے کی ضرورت فوری مالی تعاون کی حد تک رہ گئی ہے ۔اگرچہ اس گفتگو کے دوران دو طرفہ رابطہ اور تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تاہم آئی ایم ایف پیکج، ادھارتیل کی فراہمی جاری رکھنے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں ڈیپازٹ کئی گئی رقم کی مدت میں توسیع پر اتفاق نے کچھ عبوری آسانیوں کے امکانات پیدا کئے ہیں ۔ یمن میںخانہ جنگی کا آغاز پاکستان سعودیہ تعلقات میں ایک نازک موڑ تھا۔ سعودی رہنماؤں نے تسلیم کیا تھا کہ تنازعات کو مؤثر طریقے اور تیزی سے ختم کرنے کے لیے انھیں اپنے اسٹریٹجک اتحادی کی فوجی مہارت کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ سے رجوعکا فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر زوردار بحث شروع ہو گئی، قانون سازوں نے بالآخر جنگ میں الجھنیکے خلاف ووٹ دیا ۔ سعودی رہنماؤں کے لیے یہ دھوکہ دہی کے مترادف تھا، اس وجہ سے کہ اس معاملے کو پاکستان کی سیاسی قیادت نے نامناسب انداز میں ہینڈل کیا۔نتیجے کے طور پر تعلقاتکا دائرہ کار تنگ ہوتا گیا۔ ابھرتی ہوئی سعودی قیادت ، جس کی سربراہی ولی عہد محمد بن سلمان نے کی تھی ،نے حکومت کی بجائے فوجی قیادت کے ساتھ براہ راست معاملات کو ترجیح دی۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی کے ساتھ آنے والے برسوں میں یہ رجحان برقرار رہا جس نے معاملات کو مزید مشکل بنا دیا۔ کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں تبدیلی نے دو طرفہ تعلقات کو متاثر کیا۔ حالیہ دنوں شہباز شریف حکومت کی مدد کی خاطر آرمی چیف کو متعدد عالمی اداروںاور ریاستوں سے مالی تعاون کی اپیل کرنا پڑی۔۔پاکستان مین سعودیہ کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ وقتی امداد کے تناظر میں دیکھا گیا جبکہ سعودیوں نے تیزی سے یہ سوال کرنا شروع کر دیا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات میں پاکستان میز پر کیا لاتا ہے ۔ سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات پاکستان میں استحکام اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔تاہم ابھرتی ہوئی جغرافیائی ،سیاسی صورتحال پاکستان کے لیے کئی اہم وجوہات کی بناء پر سعودی عرب کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا راستہ بناتی ہے۔ خطے میں پراکسی جنگ بندی کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔امریکہ مشرق وسطیٰ سے دور اور ہند بحرالکاہل کے تھیٹر کی طرف اپنی افواج کو دوبارہ ترتیب دینے کا خواہاں ہے۔ یہ خلیجی ریاستوں، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتے ہوئے غصے کا سبب بن رہا ہے۔ ان خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مضبوط دو طرفہ تعلقات کو اچھی طرح سے استوار ہونا چاہئے جس میں متعدد شعبوں کا تعاون شامل ہے۔ پاکستان اور مملکت سعودی عرب مختلف بین الاقوامی مسائل پر ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں اور عالمی فورمز پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ دفاعی اور سکیورٹی تعاون ان مثالی تعلقات کا ایک شاندار باب رہا ہے تاہم تجارت اور سرمایہ کاری کے تعامل نے ابھی تک اپنی پوری صلاحیت حاصل نہیں کی ہے۔ پاکستان اپنا زیادہ تر تیل سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے لیکن سعودیہ کو برآمدات کا حجم حقیقی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ دوسری طرف، پاکستان سعودی سرمایہ کاروں کے لیے ایک وسیع پرکشش مقام ہے۔اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے گزشتہ برس پاک سعودی سپریم رابطہ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا اور پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے امکاناتکی نشاندہی کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو طرفہ بزنس کونسل بھی قائم کی گئی۔ دونوں برادر ممالک میں طویل عرصے سے وزارتی سطح پر مشترکہ اقتصادی کمیشن قائم ہے لیکن پبلک سیکٹر کی قیادت میں تعاون اکثر سست ہوتا ہے کیونکہ اسے مختلف بیوروکریٹک چینلز سے گزرنا پڑتا ہے۔بین الاقوامی تجارت باہمی فائدہ کے اصول پر مبنی ہے۔ پاکستان معیاری ٹیکسٹائل کی پیداوار میں برتری رکھتا ہے، تجربہ کار ٹیکسٹائل انجینئرز اور ورکرز ہیں۔ چونکہ اچھے معیار کا چمڑا مقامی طور پر دستیاب ہے اس لئے پاکستان بڑی مقدار میں چمڑے کی جیکٹس اور فٹ بالز برآمد کرتا ہے۔ ٹیکسٹائل سے متعلق، کھیلوں سے متعلق ملبوسات ہیں جنہیں تجارتی تعاون کے ایک ممکنہ علاقے کے طور پر بھی شناخت کیا گیا ہے۔پاکستان میں تعمیراتی سامان کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن تعمیراتی اشیاء اب مہنگی ہو چکی ہیں اس لیے عام آدمی کے لیے خریداری ناقابل برداشت ہے۔ سعودی عرب میں کمپنیوں کے پاس سستے اور تیار شدہ مکانات کی تعمیر کا وسیع تجربہ ہے۔ 230 ملین آبادی کے ساتھ پاکستان میں مکانات کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اس لیے سعودی تعمیراتی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی میدان ہو گا۔فٹ بال سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیل ہے اور پاکستان کو مسلسل تین ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں فٹ بال کی گیندیں برآمد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہاکی اور کرکٹ پاکستان کے قومی کھیلوں کی طرح ہیں۔ پاکستان میں کھیلوں سے متعلق سامان میں سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان، افریقہ اور جی سی سی ممالک میں ایک تیار مارکیٹ ملے گی۔ کھیلوں کے سامان میں اب مصنوعات کی تربیتی کٹس، حفاظتی سامان، چمڑے کے دستانے، خصوصی جوتے اور ہیلمٹ شامل ہیں۔ پاکستان کے پاس ان اشیاء کی تیاری کے لیے خام مال اور تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔حکومت عبوری سہولیات کے ساتھ ساتھ طویل المدتی تجارتی فوائد کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھے تو پاک سعودیہ تعلقات مثبت رخ پر فروغ پا سکتے ہیں۔