بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے 13 اپریل 1948ء کوجب رائل پاکستان ایئرفورس رسالپور کا دورہ کیا تو اس موقع پر آپ نے فرمایا تھا ’’پاکستان کو جتنا جلدی ہو سکے اپنی ایئرفورس قائم کرنی چاہیے یہ فضائیہ بہت ہی مستعد اور دنیا کی بہترین فضائیہ ہونی چاہیے اور اسے پاکستان کے دفاع میں بری اور بحری کے ساتھ اہم مقام پر کھڑا ہونا چاہیے‘‘۔ قائداعظم کی ان ہدایات کے عین مطابق پاک فضائیہ کو رفعت اورعروج دیاگیااور آج پاکستان ایئر فورس دنیاکی اعلیٰ ترین فضائیہ میں شمارہوتی ہے ۔بھارت نے منگل 26فروری2019 ء کورات کی سہہ پہر کشمیر کی جنگ بندی لائن عبورکی اورانٹرنیشنل فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تواگلے روز 27 فروری 2019ء کودن کی روشنی میںصبح ساڑھے دس بجے پاکستان ایئرفورس نے بھارت کی جوبینڈبجائی اوراس کے دوطیارے مارگرائے اس طوفانی ایکشن اوراس برق رفتارردعمل پر پاک فضائیہ کی صلاحیتوں کاسب کواعتراف کرناپڑا۔ ہندوستان کوفوجی اعتبارسے پاکستان پر عددی برتری یقینی طور پر حاصل ہے۔ انڈین ایئرفورس کے پاس طیاروں کے 31 سکواڈرن ہیں۔ ہر سکوڈارن میں 17یا 18لڑاکا طیارے ہوتے ہیں جبکہ پاکستان ایئرفورس کے پاس 11سکواڈرن ہیں۔ لیکن پاکستان اور ہندوستان کی عسکری اور فضائی قوت کا تقابلی جائزہ عددی برتری کے بجائے کوالٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی برتری سے لیناچاہئے جس میں پاکستان کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ عددی تقابل سے طاقت کی اصل صورتحال واضح نہیں ہوتی بلکہ طاقت کی اصل صورتحال جاننے کیلئے ہمیں کوالٹی اور جدید ٹیکنالوجی کو دیکھنا ہو گا اور اسی کوطاقت کی برتری کی بنیادبناناہوگا۔ اس دورجدیدمیں پاکستان ایئر فورس کا سب سے کارآمد ہتھیار امریکہ سے حاصل کردہF-16 اورچین کے ساتھ اپنے تیار کردہ جے ایف 17تھنڈر ہیں۔ اس خطے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جوF-16 جنگی طیاروں کو فضائی جنگ میں استعمال کرنے کا تجربہ رکھتا ہے لیکن امریکہ سے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری پاکستان کے لیے شروع ہی سے ہی بہت مشکل اور دشوار طلب رہی ہے۔جہاں تک F-16 کا تعلق ہے تواسے اہم جنگی طیارہ کوئی نہیں یہ ہر قسم کے جنگی کام انجام دینے والا طیارہ ہے۔ جے ایف17تھنڈرایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے جو پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر بنایا ہے۔ پاکستان ایک5th جنریشن طیارہ بھی تیار کر رہا ہے ۔پاکستان فضائیہ میں بہت جلد3 JF-17 Block شامل ہونے جا رہا ہے یہ طیارہ اب تک کا سب سے جدید ترین 4.5 جنریشن کا پاکستانی لڑاکا طیارہ ہو گا، اس طیارے کو جدید ائیر فریم کے علاوہ جدید حفاظتی نظام اور نئی جنریشن کے میزائلوں سے لیس کیا جائے گا۔پاکستان کے اس مایہ ناز لڑاکا طیارے جے ایف 17تھنڈر کے جدید ترین ورژن بلاک 3 کے ڈیزائن کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جس کے بعد یہ چوتھی نسل کے لڑاکا طیاروں سے بھی زیادہ جدید ہوجائے گا اور اپنی صلاحیتوں میں امریکی ایف 16، ایف/اے 18 اور ایف 15روس کے سخوئی 27 اور فرانس کے میراج 2000جیسے مشہور لڑاکا طیاروں تک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ پائلٹ کا ہیلمٹ جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار ہوگا جو طیارے کے اطراف سے بہتر واقفیت کے علاوہ ہتھیاروں پر بہترین کنٹرول کی صلاحیت بھی دے گا۔ JF-17-03-AESA-HMDsجے ایف 17 تھنڈر بلاک 3 میں طویل فاصلے پر موجود زمینی اہداف کا بہتر نشانہ لینے کیلئے خصوصی آلہ ’’ٹارگٹنگ پوڈ‘‘بھی اضافی طور پر نصب ہوگا؛ جبکہ اسے زمینی یا فضائی اہداف کو ان سے خارج ہونے والی گرمی کی بنیاد پر شناخت کرنے اور نشانہ باندھنے والے نظام’’آئی آر ایس ٹی‘‘سے بھی ممکنہ طور لیس کیا جائے گا۔ JF-17-04-Targeting-Pod اپنے بلاک 2 ورژن کی طرح جے ایف 17بلاک 3 میں بھی دورانِ پرواز ایندھن بھروانے کی سہولت ہوگی جس کے باعث یہ 2,500کلومیٹر دور تک کسی ہدف کو نشانہ بناسکے گا۔ ملک سے چلے جانے کے وقت ہمیں دفاعی سازو سامان، طیاروں اور اسلحے کے جس چھوٹے سے حصہ کا وعدہ کر رکھا تھا، ہمیں اس سے بھی محروم رکھا گیا۔آخر میں ہمیں انڈیا سے ناکارہ پرزوں سے بھرے صندوق ملے، جن کا کوئی استعمال نہیں ہو سکتا تھا۔اس نوزائیدہ فضائیہ کے سفر کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے 1947ء میں کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کی لڑائی اور پھر 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں پاکستان ایئر فورس نے نہایت بے سروسامانی میں بھی بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان فضائیہ کے پرانے افسران بالخصوص ایم ایم عالم مرحوم کی بہادری،جرات اور مہارت ہمارے سامنے ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک فضائیہ نے ان جنگوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اگرپاک فضائیہ کی کارگردگی کومختصرالفاظ میں بیان کرناہوتوبس یہی کہاجاسکتاہے کہ پاک فضائیہ کی تاریخ عظمت و شجاعت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔الحمدللہ !آج پاکستان طیارہ سازی میں خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہے۔پاک فضائیہ پاکستان کی فضائی حدود کی محافظ ہے۔ اس کے پاس 1530ہوائی جہاز ہیں۔ پاک فضائیہ کے پاس 2015 میں اس کے اپنے بنائے گئے 200جے ایف17تھنڈر ہیں۔ پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا شمار دنیا کے بہترین پائلٹس میں ہوتا ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے ارتقا کے حوالے سے ایئر کموڈور ریٹائرڈ قیصر طفیل کا کہناہے کہ پاک فضائیہ تین ادوار سے گزر چکی ہے۔ پہلا دور وہ تھا جس میں پاکستان برطانوی عملداری سے ایک جمہوریہ بنا۔ اس وقت پاکستان ایئر فورس پہلے سے استعمال شدہ ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘آلات استعمال کر رہی تھی۔ اس کے بعد دوسرا دور وہ تھا جب پاکستان سینٹو اور سِیٹو کا رکن بنا۔ یہ دور 1965ء تک جاری رہا جب انڈیا کے خلاف جنگ میں امریکی فضائی طاقت کی ایک بڑی کھیپ ہمیں ایف 86 سیبر اور ایف 104 سٹار فئیمر طیاروں کی شکل میں ملی۔ اس وقت امریکہ کے ساتھ تعاون کا یہ عالم تھا کہ پی اے ایف کا ہر دوسرا پائلٹ امریکہ سے فضائی تربیت لے رہا تھا۔اور پھر تیسرا دور اس وقت شروع ہوا جب پاکستان پر پابندیاں لگنا شروع ہوئیں۔ اس دور نے پاکستان کو موقع دیا کہ ہم اپنی صلاحیتوں میں تنوع لے کر آئیں اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔