پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں سالانہ فارمیشن کمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ پاک فوج ملکی دفاع کے لئے ہر خطرے کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں حاصل شدہ ثمرات علاقہ میں مزید امن و استحکام کا باعث بنیں گے۔ پاک فوج 18سال سے حالت جنگ میں ہے۔ سب سے پہلے امریکی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے طور پربے شمار جوانوں کی قربانی دی، اس کے بعد ضرب عضب، خیبر ون ٹو اور اب آپریشن ردالفساد کے ذریعے پاک سرزمین سے دہشت گردوں، شرپسندوں ان کے سہولت کاروں اور فنانسر کا صفایا کرنے کے لئے کارروائیاں جاری ہیں۔ ضرب عضب آپریشن کے بعد دہشت گرد اپنی محفوظ کمین گاہوں سے نکل کر ملک بھر میں پھیل گئے تھے، مساجد،مدارس،تفریح گاہوں اور عوامی مقامات پر خودکش حملے،بم دھماکے اور فائرنگ معمول بن گیا تھا چونکہ پاک فوج ابھی تک خیبر پی کے ،کے شورش زدہ علاقوں میں امن قائم کرنے میں مصروف تھی اس لئے ملک بھر سے تخریب کاروں کا قلع قمع کرنے میں تاخیر ہو گئی لیکن جیسے ہی پاک فوج نے خیبر پی کے میں حکومتی رٹ قائم کی تو ملک بھر میں امن و امان کی فضا قائم کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اس سلسلے میں فروری 2017ء میں آپریشن ردالفساد کا آغاز کر کے نیشنل ایکشن پلان کے 20نکاتی ایجنڈے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنانے کے اقدامات شروع کئے گئے۔ اس آپریشن کے بڑے اہداف میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم شدت پسندوں کے سلپر سیلز اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ تھا۔ آپریشن رد الفساد کی بیشتر کارروائیاں انٹیلی جنس معلومات کے تحت کی جا ری ہیں جس کا دائرہ کار فاٹا اور خیبر پی کے سے لے کر کراچی‘ بلوچستان اور پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانے کے لئے سرحدوں پر بھی سکیورٹی یقینی بنائی گئی ہے ۔مغربی سرحد پر باڑ لگا کردہشت گردوں کی نقل و حرکت اورسمگلنگ کو روکا گیا، اس سرحد پر باڑ کی تنصیب سے نہ صرف خیبر پی کے میں امن قائم ہوا بلکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی حکومتی رٹ بحال ہوئی ہے ۔ جس کے ثمرات سے قوم اب مستفید ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ شورش زدہ علاقوں میں آئین و قانون کی مکمل پاسداری کی جا رہی ہے جبکہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی کمی آچکی ہے ۔اس سے قبل تخریب کار عناصر چوری، ڈکیتی، قتل اور اغوا جیسی کاررائیاں کر کے ہمسائیہ ملک میں بھاگ جاتے تھے ،ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کر کے ہی افغانستان منتقل کیا گیا تھا ۔ امریکی سینیٹر لنڈے گرائم نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا اعتراف کیا تھاکہ خواہش کے باوجود جو کام امریکہ 18سال میں نہ کر سکا پاک فوج نے وہی کام صرف 18ماہ میں کر دیا ہے،پاک فوج کے ایسے اقدامات ہی ملک دشمن عناصر کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب کو ہی ایشو بنا کر پی ٹی ایم نے پاک فوج کی چوکیوں پرحملے کئے اور ابھی تک وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے بارودی سرنگوں کے ذریعے فوجی قافلوں کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آ رہے۔ پاک فوج نے کراچی کی روشنیوں کو بحال کر کے ملک دشمن گروہوں کی سرکوبی کی۔ کراچی آپریشن کی بدولت نہ صرف وہاں پر کاروبار زندگی مکمل بحال ہو چکا ہے بلکہ سرمایہ دار بلاخوف و خطر پاکستان آنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے لیکن ایک عرصے تک بانی ایم کیو ایم نے اس شہر کو یرغمال بنا ئے رکھا ۔ بھتہ خوری اور قتل و غارت کے باعث تاجر یہاں سے اپنا کاروبار بیرون ملک شفٹ کرنا شروع ہو گئے تھے۔ ہڑتالوں سے کاروبار زندگی تباہ ہو چکا تھا لیکن پاک فوج نے نہ صرف وہاں امن قائم کیا بلکہ تاجر برادری کو تحفظ فراہم کرکے ملکی استحکام کے لئے کردار ادا کرنے پر بھی تیار کیا ۔آج کراچی کے عوام تاجر‘ ٹرانسپورٹر ‘ دکاندار، غریب اور امیر پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں امن کی فضا قائم ہو چکی ہے۔ پاک فوج کی کاوشوں سے ناراض بلوچ پہاڑوں سے اتر کر آئین و قانون کے سامنے سر خم کر چکے ہیں جبکہ علیحدگی پسندوں کی سازشیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب کے بعد دہشت گردوں نے بلوچستان کے راستے سے کارروائیاں شروع کردی تھیں لیکن پاک فوج نے تیزی کے ساتھ بلوچستان سے ملحقہ افغان سرحد پر بھی باڑ لگانا شروع کر دی ہے جس کے باعث اب بلوچستان میں بھی تیزی سے امن قائم ہورہاہے۔ ملک دشمن عناصر نت نئے حربوں سے ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔کبھی این جی اوز کی آڑ میں ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کی جاتیں ہیں تو کبھی سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے دفاعی اداروں پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے لیکن آفرین ہے پاک فوج پر جو ہر خطرے کو بھانپ کر اس کا جواب دیتی ہے ۔آپریشن ردالفساد، ضرب عضب ،خیبر ون ٹو اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد ملک میں امن قائم ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ثمرات کو ضائع ہونے سے بچا کر امن و استحکام کے لئے سب ملکر کام کریں، سیاسی و عسکری قیادت معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے صف آرا ہے تمام سیاسی ومذہبی اور سماجی تنظیموں کو بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ ہم بحیثیت قوم اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔