معزز قارئین!۔23 مارچ 1940ء کو جب قائداعظمؒ کی قیادت اور ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے ، اسلامیان ہند نے لاہور کے ’’ منٹو پارک ‘‘( موجود ہ اقبال ؒپارک ) میں ’’قراردادِ پاکستان ‘‘ منظور کی تھی تو، قائداعظم محمد علی جناحؒ ، اُن کے نائبین اور ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے کارکنان ۔ ہندو اکثریت اور قیام پاکستان کی مخالف مذہبی جماعتوں (خاص طور پر ) کانگریس نواز مولویوں کے خلاف ’’دفاعی جنگ ‘‘ میں مصروف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ یوم پاکستان‘‘ (23 مارچ ) ’’ یوم آزادی‘‘ (14 اگست ) اور ’’یوم دفاع ‘‘ (6 ستمبر ) کو پوری قوم اپنے دشمن ملک بھارت کے خلاف ’’دفاعی جنگ ‘‘ میں مصروف ہو جاتی ہے۔ تحریک پاکستان کے دَوران بھارت کے مختلف صوبوں میں ، ہندودہشت گردوں اور سِکھوں نے 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور ہزاروں مسلمان خواتین کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ مشرقی (اب بھارتی) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کردِی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے ننھیال کی طرح ہمارے خاندان نے بھی میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں پنجاب کی مسلمان ریاست مالیر کوٹلہ میں پناہ حاصل کر لی تھی۔میرے والد صاحب ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ (National Guards) کو لٹھ بازی سِکھایا کرتے تھے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران سِکھ ریاستوں ’’نابھہ۔پٹیالہ‘‘ اور ضلع امرتسر میں میرے خاندان کے 26 افراد (زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ یوم آزادی سے کچھ دِن پہلے نواب آف مالیر کوٹلہ کے گارڈز کی حفاظت میں دو اڑھائی سو مسلمانوں کو لے کر ایک خصوصی ٹرین مالیر کوٹلہ سے قصورکی طرف روانہ ہُوئی۔ فیروز پور سے آگے سِکھوں نے ریلوے لائن اُکھاڑ دِی تھی۔ ہمارے گارڈز ہمیں ٹرین سے اُتار کر کھلے میدان میں لے گئے ۔ ہر طرف اندھیرا تھا اور دُور سے قریب آتے ہُوئے سِکھوں کے نعرے ’’ جو بولے سونیہال ۔ ستّ سری اکال ‘‘ کی گونج تیز ہوتی گئی۔ پھر اچانک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی "Blaoch Regiment" کا ایک لشکر ہماری مدد کو پہنچ گیا ۔ میرے والد صاحب نے مجھے ’’لٹھ بازی ‘‘ تو نہیں سِکھائی لیکن، اُن کی شفقت اور محبت سے مَیں ’’ قلم باز ‘‘ بن گیا ۔ مَیں نے 1956ء میں پہلی اردو نعت لکھی جو لائل پور ( فیصل آباد ) کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں بی۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب ، مَیں نے مسلک صحافت اختیار کِیا۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور دوسرا ’’ محکمہ تعلقات عامہ مغربی پاکستان‘‘ کی شائع کردہ ملّی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہُوا۔ میرے دوست ، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود ، جنوری 1999ء میں ’’ ریڈیو پاکستان ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ اُنہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو از سر نو ریکارڈ کروایا۔ میرا ترانہ بھی جسے پٹیالہ گھرانہ کے نامور گلوکار جناب حامد علی خان نے گایا۔ ترانے کا عنوان ، مطلع اور دو بند یوں تھے/ ہیں…… اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے! ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے! شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے! مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے! مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! معزز قارئین!۔ یہ میری بدقسمتی تھی / ہے کہ ’’ مَیں نے 16 دسمبر 1971ء کو قائداعظمؒ کے پاکستان کو دولخت ہوتے دیکھا ۔ مشرقی پاکستان ۔ بنگلہ دیش بن گیا اور بچے کھچے پاکستان کو ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نام دے کر ، ذوالفقار علی بھٹو سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان اور پھر وزیراعظم پاکستان منتخب ہُوئے ۔ اُن کے دَور میں مسئلہ کشمیر مذاکرات کی نذر ہوگیا اور دو بار وزارتِ عظمیٰ کا جھولا جھولنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَور میں بھی۔ بقول ’’شاعرِ سیاست‘‘ … ٹی وی کی سکرِین پہ ، فوٹو کھِچواتے! اِک دُوجے کے گھر میں ،رہیں آتے جاتے! اور کریں مضبْوط ،تجارت کے رِشتے! مسٔلہ کشمیر کو ڈالیں ، کھُوہ کھاتے! فروری 1999ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے براہمن وزیراعظم شری اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے ۔ اُنہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے ساتھ اعلان لاہور پر دستخط بھی کردئیے لیکن، اُس سے ایک سال قبل 1998ء میں اُن کی نظموں کا مجموعہ شائع ہو چکا تھا ۔ ایک نظم کا عنوان ہے ’’ پڑوسی سے !‘‘ ۔ جس کے دو بند پیش خدمت ہیں … اپنے ہی ہاتھوں تم ، اپنی قبر نہ کھودو! اپنے پَیروں پر آپ ، کلہاڑی نہ چلائو! او نادان پڑوسی ، اپنی آنکھیں کھولو! آزادی انمول ، نہ اس کا مول لگائو! …O… امریکہ کیا سنسار ، بھلے ہی ہو ورُدھ! کاشمیر پرؔ بھارت کا، دَھوج نہیں جھکے گا! ایک نہیں ، دو نہیں ، کرو بیسوں سمجھوتے! پر سو تنتر بھارت کا مستک نہیں جھکے گا! ہندی لفظوں کے معنی ۔ ’’ورُدّھ (مخالف ) ۔ دھوَج( جھنڈا) ۔ سَوتنتر ( آزاد ) ۔ مستک ( ماتھا )‘‘۔ اِس پر ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ تماشا دِکھا کر بہاری گیا ‘‘ ۔ جولائی 2001ء میں صدر ِ پاکستان جنرل پرویز مشرف ’’آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے۔ مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا ۔ مذاکرات طویل سے طویل ہوتے گئے تو ، مجھ سے ایک بھارتی خاتون صحافی ’’ سِیما جی ‘‘ نے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ لگتا ہے برف پگھل رہی ہے ؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جب تک برف "Freezer" سے باہر نکال کر دھوپ میں نہ رکھی جائے تو، وہ کیسے پگھلے گی؟‘‘۔ مَیں نے اُنہیں اٹل بہاری واجپائی جی کی ایک مختصر نظم سُنائی ۔واجپائی جی نے کہا تھاکہ … ’’اونچے پہاڑ پر پیڑ نہیں لگتے پودے نہیں اْگتے نہ گھاس ہی اْگتی ہے جمتی ہے صِرف برف جو کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح ٹھنڈی ہوتی ہے‘‘ مَیں نے پھر اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح جمی ٹھنڈی برف محض چکنی چپڑی باتوں اور مسکراہٹوں سے کیسے پِگھلے گی؟ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر بھارت کی طرف سے ’’ امن کی آشا ‘‘ کے پھیلائے ہُوئے جال میں ۔ ’’ سُر کشیترا‘‘ اور ’’کرکٹ کشیترا‘‘ کا دَور چلا ۔ چلتا رہا ۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کو مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ 18 اگست 2018ء کو جناب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو، اُنہیں بھارت کے ’’بنیا قوم ‘‘ کے وزیراعظم شری نریندرمودی سے ’’ امن کی آشا ‘‘ کی بہت زیادہ امید ہوگئی تھی؟ لیکن، اُنہیں بزرگوں کی یہ نصیحت معلوم نہیں تھی کہ ’’ ٹھگ مارے انجان کو، بنیا مارے جان کو ‘‘۔ (یعنی۔ ٹھگ تو ناواقف کو لوٹتا ہے اوربنیا واقف کو ) ۔ یہ الگ بات کہ’’ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیںاور ہمارا مستقل دوست عوامی جمہوریہ چین بھی ہمارے ساتھ ہے لیکن، مسئلہ کشمیر یا دوسرے مسائل پر بھارت سے پاک فوج کو نمٹا ہوگا اور محب وطن پاکستانیوں کو ۔ مَیں بار ہا عرض کر چکا ہُوں کہ ’’ اگر وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ بنانا چاہتے ہیں تو، اُنہیں ’’ خوشحال طبقوں اور غریب طبقوں ‘‘ میں ’’مؤ اخات ‘‘ ( بھائی چارے ) کا رشتہ قائم کرانا ہوگا، جیسا کہ حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ریاست ِ مدینہ میں انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی دولت مہاجرین مکّہ کو پیش کردِی تھی۔ بہرحال اِس حقیقت سے انکار نہیں کِیا جاسکتا کہ ’’ جب تک جان ہے پاک فوج اور ہر پاکستانی کو بھارت کے خلاف دفاعی جنگ لڑنا ہوگی ‘‘ ۔