وزیراعظم عمران خان نے بھارت کی جانب سے کسی قسم کی مہم جوئی یا بڑی فوجی کارروائی کا جواب دینے کے لیے فوج کو مکمل اختیار سونپ دیا ہے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پلوامہ واقعہ کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی اور وہیں سے سارے منصوبے پر عملدرآمد کرایا گیا۔ بھارت کے پیدا کردہ اشتعال کے منفی اثرات کے پیش نظر قومی سلامتی کمیٹی نے عالمی برادری سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ہم عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست ان کے تحفظ کی استعداد رکھتی ہے۔‘‘ پاکستان جنوبی ایشیا کی وہ اہم ریاست ہے جس نے خطے میں مداخلت کی خواہاں عالمی طاقتوں کے ساتھ سرد و گرم تعلقات کو سہا ہے۔ آزادی کے وقت جس ملک کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے مسائل لاحق رہے اور جس کے بہت جلد خاتمہ کی باتیں کی جا رہی تھیں اس ملک کا اپنے پائوں پر کھڑا ہونا اور اپنے سے بڑے ممالک کے دبائو کے سامنے بند باندھ دینا غیر معمولی بات ہے۔ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کی جانب سے بم دھماکے کرنے والے دہشت گرد افغانستان کے راستے داخل ہو کر کارروائیاں کرتے رہے۔ افغان جہاد کے دوران پاکستان نے ایک سپر پاور کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 2001ء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو پاکستان کے بنا وہ یہ لڑائی شروع کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ اعداد و شمار اور شہادتیں بتاتی ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ کردار ادا نہ کرسکے جو تن تنہا پاکستان نے انجام دیا۔ پاکستان نے نہ صرف افغانستان میں بیٹھی اتحادی افواج کے آپریشنوں میں مدد فراہم کی بلکہ خود اپنے ہاں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں۔ شمالی و جنوبی وزیرستان میں آپریشن کئے۔ سوات سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا، پورے ملک میں ردالفساد آپریشن کیا۔ ان آپریشنوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی جاری رکھا تاکہ افغانستان سے عسکریت پسندوں کا پاکستان میں داخلہ روکا جا سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس دوران امریکہ، بھارت اور افغانستان نے مشترکہ طور پر پاکستان کے سکیورٹی مسائل بڑھانے کی کوشش کی۔ بھارت ایسے تاریخی مواقع کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے جب پاکستان کسی طرح کے داخلی یا خارجی بحران کا شکار ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جب امریکہ اور نیٹو اتحادی افغانستان میں قدم نہ جما سکے اور پاکستان نے اپنے علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کرلیا تو عالمی دفاعی مبصرین دونوں کے دفاعی حجم اور صلاحیت کا تقابلی جائزہ لینے لگے۔ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار کسی دوسرے ملک کو ٹھہرا کر اپنی ساکھ بچانا چاہتا تھا۔ کمزور معاشی حالات والا پاکستان امریکہ کا آسان شکار تھا۔ امریکہ نے جونہی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا اشارہ دیا بھارت تیزی سے اس کی طرف لپکا۔ بھارت نے سب سے پہلے امریکہ کے دفاعی کارخانوں سے اسلحہ کے ڈھیر خریدنا شروع کئے پھر بھارت کی فرمائش پر تحریک حریت کشمیر سے جڑی تنظیموں اور شخصیات کو یکطرفہ طور پر دہشت گرد قرار دینا شروع کیا۔ امریکہ آج بھی کشمیریوں کے متعلق بھارتی سوچ کو قبولیت عطا کرتا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی رپورٹس واضح طور پر بھارت کو ظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دے رہی ہیں۔ بی جے پی کی سیاست کا محور مسلمان اور پاکستان دشمنی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات مسلم کش فسادات کے بعد حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سکیورٹی اہلکاروں پر خودکش حملے کے بعد مسلمانوں اور کشمیریوں پر سرعام تشدد کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت سیکولرازم اور جمہوریت جیسے تصورات سے دور چلا گیا ہے۔ جمہوریت کا سادہ مطلب اکثریت کی رائے کا احترام ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ آبادی ہر حال میں بھارت سے آزادی چاہتی ہے۔ بھارتی فوج کئی عشروں سے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی آواز دبانے کی کوشش میں ہے مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ افغانستان کے معاملے میں بھارت ایک بار پھر ریلوکٹا بن کر رہ گیا ہے۔ علاقائی طاقت بننے کے لیے اسے خطے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانا ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش اور افغانستان میں اپنے حامی پیدا کرنے پر کافی زور لگایا ہے جو اب تک اسے مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کرسکا۔ حالات بی جے پی کے حق میں اچھے نہیں لگتے۔ نریندر مودی کی معاشی اور علاقائی پالیسیاں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ ان حالات میں بعض بھارتی حلقے پاکستان کے خلاف عوامی سطح پر اشتعال پیدا کرنے کی مہم شروع کرچکے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارت میں درجنوں افراد کو کشمیری، پاکستانی یا صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی حکام جنگی ماحول بنا کر پاکستان پر حملے کی باتیں کر رہے ہیں۔ بھارت کے اپنے مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں انتہا پسند ووٹ کو اپنا حامی بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ بھارتی حکومت اور اس کے کل پرزے یہ سوچے بنا پاکستان پر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت موجود نہیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور ہر قسم کے تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنے پر یقین رکھتا ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے طویل اجلاس میں یہی امور زیر بحث رہے ہیں کہ بھارت کی شرانگیزی کا جواب دینے میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ اسی لیے وزیراعظم نے فوجی قیادت کو خاص قسم کے حالات میں فوری فیصلوں کا ختیار دے کر گویا شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کا انتظام کیا ہے۔