پاکستان اور چین کی قیادتیں سی پیک کے بیانیہ کی حالیہ برسوں کی سحر انگیزی کے بعد اب حتمی طور پر اس منصوبہ کے حقیقت پسندانہ مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں اس عمل کے نتائج کا مستقبل میں پتہ چلے گا لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے وابستہ توقعات کو حقیقت پسندانہ بنانے کے عمل کا آغازکر چکے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان جب بیجنگ کے دورے پر تھے تب پاکستان میں بہت سے لوگ چین کی جانب سے بہت بڑے معاشی پیکیج یا پھر کم از کم 6ارب ڈالر کے پیکیج کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ان توقعات کی وجہ پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت کے علاوہ چین کے پاکستان سے جڑے سی پیک کے اس خواب کی تعبیر سے بھی تھی جس کے ذریعے چین پاکستان کے راستے اپنی تجارت کو عالمی معیشت سے جوڑنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ جیسا کہ اب بھی محسوس ہو رہا ہے کہ چین سی پیک منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل میں بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہے۔ شاید چین کو2013ء میں سی پیک کے افتتاح کے وقت اس حوالے سے بے یقینی کی توقع نہ تھی۔ درحقیقت اس وقت دونوں حکومتیں سی پیک کے خطے کے گیم چینجر کے اپنے اپنے نعروں کے سحر میں گرفتار تھیں۔ اب دونوں ملک اس خواب سے بیدار ہو چکے ہیں اور سی پیک کے علاوہ بھی وسیع باہمی تعاون کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ سی بیک کا منصوبہ اس وقت متعارف کروایا گیا جب پاکستان کی معیشت شدید دبائو میں تھی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں پاکستان نے سی پیک اور چین کے تعاون کو معاشی اور دفاعی دونوں لحاظ سے گیم چینجر کی حیثیت سے دیکھنا شروع کر دیا جبکہ چین پاکستان کے لیے امریکہ کا متبادل بننے کے بجائے ون بیلٹ راہداری کو خطہ میں باہمی معاشی تعاون کی شکل میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ در حقیقت ابتدائی مرحلے میں دونوں ممالک کے سی پیک بارے مختلف محرکات کا منطقی انداز میں جائزہ نہ لیا گیا تھا نا ہی دونوں ممالک کو اس حوالے سے مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ تھا۔ چین سی پیک کو عالمی رابطوں کا ذریعہ جبکہ پاکستان اس منصوبہ کو پاکستان کے معاشی اور سٹریٹجک اور علاقائی مسائل کے تریاق کے طور پر لے رہا تھا۔ پاکستان نے داخلی طور پر سرمایہ کاری کے لیے چین دوست ماحول پیدا کیا ہے یہاں تک کہ پاکستانی حکومت اور بیورو کریسی نے خطہ کے دیگر ممالک کی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی۔ ابتدائی طور پر چین کی کمپنیوں کے لیے یہ صورت حال آئیڈیل تھی مگر جلد ہی حکومت پر معاملات کو پبلک کرنے کے مطالبے نے ان کو ناراض کر دیا اس کے علاوہ علاقائی اور سٹریٹجک معاملات میں بھی پاکستان کا چین پر انحصار بڑھنا شروع ہو گیا۔ ایک معروف مبصر نے ان حالات کا تبصرہ دلچسپ انداز میں ان الفاظ میں کیا کہ پاکستان کو ایک اور امریکہ کی تلاش تھی‘ پاکستان نے اپنی سٹریٹجک ضرورتوں کے تحت خارجہ پالیسی اور دونوں ممالک کے تعلقات پر توجہ مبذول کرنا شروع کی۔ دوسری طرف چین کے عالمی تناظر میں اپنے خواب ہیں اور یہ خواب اپنے عروج پر ہیں جن میں چین عالمی گورننس میں خود کو رہنما دیکھتا ہے بی آر آئی چین کے خوابوں کی تعبیر کا ہتھیار ہے۔ گو چین علاقائی معیشت کو باہم جوڑنے کاعمل نہائت نرم انداز میں کر رہا ہے چین کی یہی سافٹ پاور اس کے سٹریٹجک اور سیاسی مفادات کو بڑھا رہی ہے۔ سافٹ پاور کے لیے سافٹ امیج بنیادی تقاضا ہے۔ البتہ چین اپنی بنیادی اقدار پر سمجھوتہ کیے بغیر عالمی اقدار سے موزونیت کی کوشش کر رہا ہے۔ معروف ماہر معاشیات دمبیسا میو نے اپنی حالیہ کتاب Edge of Chaos ’’جمہوریتیں معاشی گروتھ میں کیوں ناکام ہیں اور ان کا حل کیا ہے‘‘ میں یہ دلیل دیتی ہیں انفرادی آزادیوں پر بری طرح اثر انداز ہونے کے باوجود چین جیسے نظام زیادہ مروج ہیں۔ چین کی معاشی ترقی اور اس کے غربت کے خاتمے میں کامیابی پوری دنیا کی طرح پاکستان کے لیے بھی پرکشش ہے۔ یہ دو پہلو ہی چین کے سافٹ پاور امیج کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی یا علاقائی سطح پر کسی بھی تنازعہ میں فریق بننے سے گریز کی پالیسی پر قائم ہے ،باوجود اس کے کہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ جاری ہے تاہم اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اس تنائو کے کیونکہ دونوں ممالک پر طویل المدتی نہایت مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لیے یہ جنگ بھی زیادہ دیر جاری نہیں رہے گی۔ چین اپنے قریبی ہمسایوں کے ساتھ جغرافیائی اور معاشی تعلقات کو ازسر نو منظم کر رہا ہے اور تنائو کم کرنے کی کوشش میں ہے اس کے جاپان کے ساتھ تعلقات میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے اور دونوں ممالک میں معاشی تعاون میں اضافہ باہمی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے جاپان کے وزیر اعظم شن زوایب کے حالیہ دورہ چین کے دوران دونوں ممالک نے تنازعات کو اعلیٰ سطح پر تعمیری انداز میں حل کرنے کی بات کی ہے۔ چین اور بحیرہ جنوبی چین کے ممالک بھی اپنے تنازعات ٹھنڈا کرکے اور جغرافیائی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔فلپائن نے حال ہی میں چین کے ساتھ معاشی تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے مطابق چین فلپائن کو انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے 73ملین ڈالر فراہم کرے گا چین جنوبی ایشیا بارے بھی اس حکمت عملی پر کاربند ہے اور بھارت سے اپنے تعلقات میں بہتری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے الفاظ ہیں کہ چین اور بھارت کا سٹریٹجک تعاون خود بولے گا اور یہ منظر دنیا دیکھے گی کہ ڈریگن اور ہاتھی اکٹھے ناچ رہے ہوں گے۔ ہماری قیادت ایک جمع ایک برابر دو کے بجائے 1+1=11کی توقع کر رہی ہیں۔ پاکستان کے لیے چین کی حکمت عملی اور سوچ کے ساتھ اپنے روایتی اور سٹریٹجک اہداف پر سمجھوتہ کئے بغیر موزونیت پیدا کرنا چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین پاکستان مخالف قوتوں کا خود کو دشمن ظاہر کئے بغیر اپنے سٹریٹجک اور معاشی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان کے بیجنگ ‘ریاض ‘استنبول اور کسی حد تک روس سے تعلقات میں گہرائی آ رہی ہے اور یہ تعلقات واشنگٹن کابل اور تہران سے تعلقات میں بہتری میں بھی مددگار ہیں۔ ممکن ہے پاکستان کو معاشی لحاظ سے چین سے کوئی بہت زیادہ توقعات نہ ہوں۔ مگر بدلے میں چین کو پاکستان سے توقعات ضرور ہیں۔یہ توقعات چین کی کمپنیوں کو مراعات دینے سے کچھ زیادہ ہیں چین اپنے ہمسایہ ممالک کے درمیان تنائو نہیں دیکھنا چاہتا۔ چاہے وہ جنوب مشرقی یا وسط ایشیائی ممالک ہوں یا جنوبی ایشیا کے ممالک ہوں‘ خواہ اس تنائو کی کوئی بھی صورت ہو۔ چاہے یہ شدت پسندی، انتہا پسندی کی صورت میں ہوں یا سرحدی تنازعات ہوں۔ تنائو عالمی توجہ کا باعث بنتا ہے جو چین کے بی آر آئی اور سی پیک منصوبوں کے لیے مفید نہیں۔ باوجود اس کے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے معاشی اور سیاسی تعلقات میں بنیادی چیلنجز ہیں مگر یہ تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں اس کے لیے صرف حکمران اشرافیہ کو بے حسی سے نکلنا ہو گا۔