وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے، کسی کو اندازہ نہیں کہ صورتحال کب بہتر ہو گی۔ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے عظیم سماجی رہنما فیصل ایدھی میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جس کی بناء پر وزیر اعظم کو بھی اپنا ٹیسٹ کرانا پڑا، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کورونا نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔کورونا ختم بھی ہو جائے تب بھی دنیا کو سنبھلنے میں بہت وقت لگے گا۔ کورونا فاصلے جغرافیائی فاصلوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔ احتیاط کے ساتھ ساتھ بیدار ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا کا آغاز چین سے ہوا اور چین نے اس کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ چین میں یہ ہوا کہ ایک ہزار بستروں کا ہسپتال 6 دن میں تعمیر کر لیا گیا اور یہ بھی ہوا کہ 1500 بستروں کا ہسپتال جو کہ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ تھا ، محض 13 دنوں میں تعمیر ہو گیا۔ پوری چینی قوم نے کورونا کے خلاف جنگ لڑی اور پوری دنیا میں چین پہلا ملک قرار پایا جس نے کورونا سے جنگ جیتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ کورونا نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، مکمل بحالی میں بہت وقت اور ٹائم لگے گا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج وہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی ٹائیگر ہے اور اس نے بحیثیت چینی قوم اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ کورونا کے خلاف جنگ کیلئے چائنا ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیسے ہو گا؟ کہ چین میں کورونا جنگ میں نہ صرف سب نے حصہ لیا بلکہ جو امداد جس سے ہو سکتی تھی اُنہوں نے وہ بھی پہنچا دی۔ ہمارے ہاں چین سے امدادی سامان کے جہاز آرہے ہیں اور آگے غائب ہو رہے ہیں۔ یہاں کے سرمایہ دار اور جاگیردار آج بھی فرعون اور قارون کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑ اقرنطینہ سنٹر ملتان میں بنا اور ملک میں 6 لیبارٹیاں قائم ہوئیں وسیب کو ایک بھی نہیں ملی۔ اب سوچئے کہ وزیر خارجہ کس سے شکایت کر رہے ہیں؟ وہ خود ہی حکومت ہیں اور خود ہی اس کے ذمہ دار۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو انصاف اور مساوات قائم کرنا ہو گا۔ بلاشبہ چینیوں میں ہزار برائیاں ہوں گی مگر وہ اپنے ملک کے خیر خواہ ہیں۔ پاکستان جس مشکل میں ہے اس سے نکلنے کیلئے چین کی معاشی اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پاک چین دوستی سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پاک چین دوستی خطے میں نئی تاریخ رقم کر رہی تھی مگر جب تک چین کی دوستی روس سے قائم رہی، چین پاکستان سے اپنے تعلقات کے بارے میں روس کی خارجہ پالیسی کے زیر اثر رہا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر بھی چین، پاکستان کے موقف کا حامی نہ تھا۔ 1961ء میں چین نے روس سے اپنے دوستانہ اور نظریاتی تعلقات ختم کر لیے تو خود کو ایشیاء میں تن تنہاء اور باقی دنیا سے کٹا ہوا محسوس کیابلا شبہ بحرالکاہل اس کے قریب تھا لیکن جاپان سے مخاصمت تھی اور تائیوان بھی چین سے ناراض تھا۔ انڈیا، روس کی محبت میں گرفتار تھا۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم چو این لائی اور پنڈت نہرو اگرچہ تیسری دنیا کے امور مسائل اور ان کے حل کے بارے میں متفق الرائے تھے، لیکن بیجنگ دہلی کو با اعتماد دوست خیال نہیں کرتا تھا۔ بیجنگ نے دوستی کے اشارے اسلام آباد بھیجنے شروع کئے۔ اسلام آباد پہلے تو ان کو وصول کرنے میں محتاط رہا پھر چین سے مصافحہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ خوشگوار فریضہ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں انجام پایا۔ چین اور پاکستان کی نئی نئی دوستی کو انڈیا نے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اچانک 1962ء میں انڈیا اور چین میں سرحدی لڑائی شروع ہوئی جس میں چین کاپلہ بھاری رہا۔ 28 اکتوبر 1962ء کو امریکی صدر جان کینیڈی نے ایک ضروری پیغام صدر ایوب خان کے نام بھیجا کہ وہ انڈیا پر چین کے حملے کو پورے جنوبی ایشیاء پر حملہ خیال کریں۔ پاکستان نے بڑا محتاط جواب دیا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ معلق ہے، انڈیا کے لیے امریکہ کی بھاری فوجی امداد پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ انڈیا اور چین کی باہمی جنگ میں امریکی دبائو کے باوجود پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ امریکہ کو پسند نہ آیا اور اس نے پاکستان پر ہر طرح کا دبائو بڑھا دیا۔ مارچ 1964ء میں چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ ریشم بنانے کا معاہدہ ہوا۔ جون 1964ء میں امریکہ نے پاکستان کو دی جانیوالی امداد کو روک لیا مگر پاکستان نے پرواہ نہ کی اور پاک چین دوستی کے عمل کو جاری رکھا آج بھی پاک چین دوستی کا سبق یہی ہے کہ برابری کی بنیاد پر تعلقات ہونے چاہئیں اور پاکستان کو امریکہ یا کسی دوسرے ملک کا دست نگر نہیں ہونا چاہئے۔ بھارت جو کہ اپنے گھمنڈ میں تھا، کو ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پاک چین کی اصل قدرو قیمت کا اندازہ ہوا۔ امریکہ اور اس کے یورپی حلیفوں نے پاکستان کی معاشی امداد بند کر دی اور پاکستان کو اسلحے کی خریداری بھی روک دی۔ اس کے بدلے میں چین نے پاکستان کی نہ صرف مالی امداد میں اضافہ کر دیا بلکہ فوجی امداد بھی بڑھا دی۔ پی آئی اے کے جہاز کوہ قراقرم کے اوپر سے پرواز کرکے صرف مسافروں ہی کو چین نہیں لے جاتے تھے بلکہ فوجی سازو سامان بھی آنے لگا۔ جب انڈیا نے پاکستان پر زیادہ دبائو ڈالا تو چین نے انڈیا کو الٹی میٹم دیا کہ باز رہو (ورنہ ہم وہ بکریاں حاصل کرنے کے لیے چڑھائی کر دیں گے جو تم 1962ء کی جنگ میں چین کی سرحدوں سے اُٹھا کر دہلی لے گئے تھے) چینی الٹی میٹم کے خوف سے انڈیا نے فوراً اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی۔ پاک چین دوستی آگے چل کر نئے امکانات کا موجب بنی، ویت نام کی جنگ میں اپنی شکست اور چین اور روس کی بڑھتی ہوئی باہمی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ نے چین سے دوستی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے چین کے گہرے دوست پاکستان سے درخواست کی جو کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے پوری کر دی۔ پھر مشکل وقت آیا 1971ء میںپاک بھارت جنگ ہوئی پاکستان دولخت ہو گیا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ امریکہ نے بیوفائی کی تاہم چین نے بنگلہ دیش کو اس وقت تک اقوام متحدہ کا رکن نہیں بننے دیا جب تک اس نے جنگی قیدیوں کو رہا نہیں کرایا۔ پاکستان نے بھی اپنی طرف سے حق دوستی ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں چین کی شرکت اور سکیورٹی کونسل میں اس کی رکنیت کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔