جو بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ میں پاکستانی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین اور مختلف تھنک ٹینک ہمارے خطہ میںاپنے ملک کی نئی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان مضامین اور انٹرویوز سے ظاہر ہے کہ امریکی ماہرین آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ کوئی تزویراتی (اسٹریٹجک) شراکت داری کی بجائے بھارت کے ساتھ اتحاد کو مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ہمارے خطہ میں کسی اور ملک کے سربراہ سے پہلے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے جس سے انکی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیزا کرٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں جنوبی اور وسطی ایشیا میں سینئیر ڈائریکٹر تھیں۔انہوں نے یہ عہدہ چھوڑنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بیانیہ کے خلاف کام کرنا چاہیے کہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطہ میںچین کا غلبہ ناگزیر ہے اور اِس علاقہ کے ملکوں کے ساتھ اتحاد بنانے اور شراکت داری قائم کرنی چاہیے۔ ان کی تجویز ہے کہ بائیڈن انتظامیہ خطہ کے ممالک میں جمہوریت کے تحفظ کے لئے کام کرے جیسا کی مائی انما (برما) میںفوج کے اقتدار سنبھالنے کے باعث اسے موقع ملا ہے۔ انکا خیال ہے کہ جمہوریت کے فروغ کے لئے امریکہ کو غیر جمہوری ممالک پر صرف پابندیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ طریقہ کار بے کار ہوچکا ہے۔انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ خطہ میں بھارت‘ آسٹریلیا‘ جاپان اور امریکہ کا چار رکنی اتحاد ’کواڈ‘ کو مزید مستحکم بنایا جائے اور اسکے ذریعے کورونا کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نپٹنے میں کام لیا جائے۔ آٹھ فروری کوامریکی صدر جو بائیڈن نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں نے ایک آزاد اور کھلے انڈو پیسیسفک (بحر ہند اور بحرالکاہل) کے لیے قریبی تعاون کریں گے ۔ دونوں ممالک کواڈ کے ذریعے مضبوط علاقائی تعاون پر کام کریں گے ۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ اور بھارت اس خطہ میں چین کو محدود کرنے کے منصوبہ پرمل جُل کر عمل کریں گے۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اوسلن نے امریکی تھنک ٹینک یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے لیے پاک امریکہ تعلقات پرایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے زور دیاہے کہ باہمی تعلقات پر امریکہ کے ماضی کے بیانیہ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق سفیر کا کہناہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو جو کئی چیلنج درپیش ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے بدنامہ زمانہ خراب تعلقات کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں ماضی میں امریکہ نے کمیونزم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ اور افغانستان کے سلسلہ میںپاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی خاطراسکے ساتھ تعلقات بڑھائے جبکہ پاکستان کو انڈیا سے اپنی سدا بہار محاذ آرائی کے باعث امریکہ سے تعلقات کی ضرورت تھی۔ اس طرح دونوں ملکوں کے مشترکہ تزویراتی مفادات کی گنجائش نکل آئی۔ ان کا کہنا ہے ہوسکتا ہے بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے میںصدر ٹرمپ کی نسبت قدرے تاخیر سے کام لے لیکن بہرحال وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ اور امن عمل کو ترک نہیں کرے گی اور یہ کام ہوکر رہے گا۔ اس لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے گو امریکہ کو افغانستان کے سلسلہ میں پاکستان کے تعاون کی ضرورت رہے گی لیکن اب وہ پاکستان کو اس قسم کی اربوں ڈالر کی مالی امداد نہیں دے سکتا جونائن الیون کے بعد دی گئی تھی۔ تاہم انکے خیال میں امریکہ کو پاکستان میں اتنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہیے کہ خطہ میں پاک بھارت کشیدگی ایٹمی جنگ کی صورت اختیار نہ کرے۔ اوسلن کے موقف کا لب لباب مضمون کی آخری جملوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وہ دن گزر گئے جب امریکہ اور پاکستان کے قریبی باہمی تعلقات میں انٹیلی جنس کی شراکت اورفوجی پہلو کا غلبہ ہوتا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اسلام آباد چین کا بہت قریبی اتحادی بن چکا ہے اس لئے اب یہ ممکن نہیں کہ وہ اب بھی واشنگٹن کے بھی قریب رہے۔ تاہم اوسلن کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان ایسا فائدہ مند رشتہ اب بھی ممکن ہے جس کی بنیاددونوں کے مشترکہ مفادات پر ہوخاص طور سے معاشی اور ثقافتی میدانوں میں۔ سابق سفیر رچرڈ اوسلن کی حقیقت پسندی اور صاف گوئی کی تعریف کرنا ہوگی کہ انہوں نے دیگر امریکی ماہرین کے برعکس پاکستان کو چین کو چھوڑ کر امریکہ کا تزویراتی (اسٹریٹجک) ساتھی بنانے پر زور نہیںدیا ۔ صدر ٹرمپ کے زمانے میں نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کھُل کر پاکستان کو مشورہ دیا کرتی تھیں کہ وہ چین کا ساتھ ترک کرے اور امریکہ کا اتحادی بنے۔ نئے حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والوں کو بھی امریکہ سے وابستہ اُمیدوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی پاکستان میں ایسے امریکہ نواز لوگوں کی کمی نہیں جواب بھی امریکہ کے ساتھ تزویراتی شراکت کرنا چاہتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ انڈیا پر دباؤ ڈال کرکشمیر کے تنازعہ کو حل کروانے میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ یہ خواہش نہ کبھی ماضی میں پوری ہوئی نہ اب ہوگی۔ امریکہ پاکستان یا کشمیریوں کی خاطر بھارت ایسے بڑے ملک اور چین کے خلاف اپنے بڑے اتحادی کوہرگز ناراض نہیں کرسکتا۔ پاکستانی ریاست کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد اپنی خواہشات اور امیدوں کی بجائے حقیقت پسندی پر رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اپنا تعاون عارضی اور مختصر مدتی مشترکہ مفادات پر رکھنی چاہیے۔ اگر امریکہ اپنے مفاد میں افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمہ اور امن کے قیام میں پاکستان کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اُس سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی ہمارے مفادات پورے کرے۔ امریکہ اپنی منڈی میں ہماری مصنوعات کو زیادہ رسائی دے۔ ٹیکسوں میں رعایت دے۔ ہماری سڑکیںاورائیرپورٹس استعمال کرنے کے عوض انکا کرایہ ادا کرے۔ایف اے ٹی ایف( فیٹف) ایسے اداروں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ہمیں گرے لسٹ سے نکلوائے تاکہ ہماری معاشی ترقی کی راہیں آسان ہوسکیں۔ اگر امریکہ ہماری مدد نہیں کرتا تو ہمیں بھی اس سے تعاون سے انکار کردینا چاہیے اور نہ صرف چین بلکہ روس سے اپنی قربت مزید بڑھادینی چاہیے۔ روس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا بھی امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ہدف رہا ہے۔ اگر امریکہ ہماری قدر نہیں کرتا تو ہمیں اسکے مفادات پورے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان کے حکمران طبقہ کو امریکی امداد کی عادت نشہ کی طرح لگی ہوئی ہے۔ اسے یہ نشہ چھوڑنا ہوگا۔