سوشل میڈیا اور ابلاغیات کے دیگر ذرائع کے مطابق پاکستان کے حالات دگرگوں ہیں۔ابتری کا سفر جاری ہے‘ بہتری نظر نہیں آتی۔ اس خبر میں کچھ حقیقت ہے اور کچھ افسانہ بھی ۔ اگر افسانہ کہیں تو بہتر ہے۔ دور حاضر میں میڈیا ایک صنعت(کاروباری فیکٹری) بن گیا ہے جس میں انفرمیشن‘ مس انفرمیشن اور ڈس انفرمیشن کی اصطلاحات عام ہیں۔فی الحقیقت میڈیا نے حالات کی کھچڑی بنا دی ہے جس میں امید‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جرات‘ صداقت‘ امانت اور ذمہ داری کا فقدان ہے۔خبرکی نوعیت اور کیفیت یہ ہے کہ انسان نے کتے کو کاٹا‘ یہ منفرد خبر ہے جبکہ کتا انسان کو کاٹتا ہے‘ معمول ہے لہٰذا غیر معمول نہ ہونے کے باعث خبریت سے محروم رہتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرض کی دکانداری زیادہ دیر نہیں چلتی۔دکان پہ پڑا مال قرض دینے والے کا ہے اور قرض دینے والے کی نیت اور منصوبہ بندی دکان کی ملکیت اور زمین پر قبضہ کرنا ہے۔اس منصوبہ بندی کی پالیسی کے مطابق قرض کی جبری سہولت‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور ریاستی اداروں مثلاً توانائی اور پٹرولیم سے وابستہ اداروں کی نجکاری ہے۔قرض ‘ نیت‘ ہمت‘ حوصلہ سب کچھ کھا جاتا ہے۔پاکستان کی حالت بھی کچھ ایسی ہے۔یہ خبر تکرار سے بتائی جاتی ہے کہ پاکستان کا تین سال میں قرض کا حجم اس قدر زیادہ ہو گا کہ پاکستان کے حساس اثاثے بھی قرض کی ادائیگی میں رہن رکھ دیے جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں غیر ملکی قرض کی پالیسی ہی چلے گی یا اس کے برعکس بھی روشن امکان ہیں؟ پاکستان کا نصیب ابتری نہیں‘ خوشی‘ خوشحالی اور ترقی ہے۔غیر ملکی قرض دینے والی قوتوں اور اداروں کی نیت اور پالیسی ہے کہ پاکستان کی ترقی ہمارے ذریعے اور ہماری مرضی کے مطابق ہو۔غیر ملکی مرضی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں خیراتی‘ فلاحی ‘ رفاہی اور تعلیمی ادارے بھی غیر ملکی امدادی مال کے مرہون منت ہیں۔ ہر قسم کی غیر ملکی‘ عالمی ایڈ‘ ایڈز بن کر پاکستان کے وجود کو کھا رہے ہیں۔طرفہ تماشا ہے کہ غیر ملکی قرض اور امدادی قرض پاکستان کی جملہ اشرافیہ لیتی ہے اور قرض کی ادائیگی عوام سے ٹیکس کی بڑھوتی کی شکل میں وصول کی جاتی ہے۔کیا قیام پاکستان کا مقصد اور مقصود یہی کچھ تھا۔کیا بانیانِ پاکستان قائد اعظم‘ علامہ اقبال‘ اکبر الٰہ آبادی علی برادران‘ سرسید احمد خان کے اغراض و مقاصد موجودہ پاکستان کی پالیسی کے مطابق ہیں یا متصادم ہیں؟ بانیان پاکستان کے پاس مقاصد تھے‘ اغراض نہیں تھیں ۔جبکہ آج اغراض عوامی وطیرہ بن گئی ہیں۔بانیان کے نزدیک پاکستان کا مطلب ایک آزاد اسلامی ریاست تھا جس کا آئین قرآن اور اسوہ رسولﷺ(اسلامی شریعت) ہے جس کا مقصود‘ اسلامی تعلیم و معیشت کے ساتھ معاشرتی یکجہتی تھا۔فی الحال اشرافیہ اغراض میں گم ہو گئی جب آزاد پاکستان کے پاس کچھ نہیں تھا تو سب کچھ ہمت‘ حوصلے ‘ ایمان‘ اتحاد اور تنظیم سے حاصل کیا۔پاکستان کے پہلے بجٹ کا خسارہ مخیر امراء سے پورا کیا گیا۔ آج پاکستان میں قرض کی تیرگی چارسو ہے۔مگر روشن جزیروں کی بھی کمی نہیں ۔مقتدر اشرافیہ غیر ملکی اغراض کا شکار ہو گئی مگر عوامی اشرافیہ نے بانیان پاکستان قائد اعظم‘ علامہ اقبال اور سرسید کی راہ نہیں چھوڑی۔پاکستان کا قیام علمی‘ فکری اور تعلیمی بنیاد پر استوار ہے۔قائد اعظم نے اپنی (موجودہ دور کے مطابق) کھربوں کی جائیداد کا 90فیصد تعلیمی اداروں کے لئے وقف کیا اور برملا کہا کہ پاکستان علیگڑھ یونیورسٹی کے میدان میں بنا ہے۔پاکستان کی ترقی‘ خوشی اور خوشحالی کا راز قومی تعلیم‘ سیاسی و معاشی آزادی میں مضمر ہے۔آج پاکستان میں معاشرتی اور تعلیمی انتشار ہے مگر اسی پاکستان میں معاشرتی یکجہتی اور قومی تعلیمی ترقی کے لئے کام کرنے والوں کی کمی نہیں‘ الحھجرۃ سکول ٹرسٹ‘ زیارت نے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں تعلیمی ترقی و یکجہتی کی روشن مثال قائم کر رکھی ہے۔ اسی طرح حیدر آباد سندھ میں سراعجاز کو حیدر آباد کا سرسید کہا جاتا ہے۔انہوں نے غیر ملکی امداد اور سیاسی وابستگی کے بغیر حیدر آباد میں غیر معمولی تعلیمی انقلاب بپا کر رکھا ہے۔سراعجاز سندھ کی صوبائی سول سروس سے وابستہ تھے۔جبکہ انہوں نے وفاقی سول سروس CSSکا امتحان بھی نمایاں کامیابی سے پاس کر رکھا تھا مگر والدین کی خدمت کی سعادت نے دور دراز کی ملازمت سے دور رکھا۔سراعجاز نے تعلیم اور ملازمت کے دوران بھی تدریس کا عمل نہیں چھوڑا۔تعلیم ان کا جنون اور جذبہ ہے۔آج کے دور میں بھی تعلیمی فیس 800سے 1000روپیہ ہے۔جو دے‘ سو بھلا‘ جو نہ دے سو بھلا۔ یہ تعلیمی ادارہ ہے کمرشل نہیں ہے۔انہوں نے اپنے آبائی گھر کو تعلیمی سنٹر بنا رکھا ہے اور رہائشی گھر کو بھی خواتین کا فری ہاسٹل بنا رکھا ہے۔ ان کے تعلیمی سنٹر میں صبح و شام کلاسز ہوتی ہیں۔ کل طلبہ کی تعداد 500کے لگ بھگ ہے جہاں سندھی‘بلوچی‘ پنجابی پٹھان اور مہاجر بچے بچیاں پڑھتے ہیں۔اکثر غریب ترین گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ،یہاں بچیاں فری تعلیم و رہائش رکھتی ہیں۔ان کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت 20سے 25وفاقی بیورو کریٹ افسران ان کے ادارے کے طالب علم رہے ہیں۔ان کے طلباء فوج‘ پولیس‘ فارن سروس‘ تعلیم اور وکالت‘ قانون‘ سیاست وغیرہ سے وابستہ ہیں۔بعض سیاسی جماعتوں نے انہیں ایم پی اے‘ ایم این اے کا امیدوار بنانا چاہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کے طلبہ نسلی‘ لسانی‘ علاقائی ‘ قبائلی اور صوبائی تعصبات سے پاک ہیں ۔ان کی تعلیم و تدریس دین اور وطن سے وفاداری کا درس دیتی ہے۔یہ خود اردو‘ انگریزی‘ سندھی‘ پنجابی میں بلا تکان بات کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بچے تعلیم سے محبت کرتے ہیں‘ وہ راہنمائی کے بعد قوم کے راہنما بن جاتے ہیں۔ان کے سی ایس پی کامیاب طلبہ میں چوکیدار ‘نائب قاصد بلکہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے بچے بھی شامل ہیں‘ جس دن راقم سر اعجاز سے ملااس دن ان کے سنٹر کے 7‘8لڑکے لڑکیاں وزارت دفاع کے تحریری امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ کل 12‘13بچے امتحان میں بیٹھے تھے۔کامیاب طلبہ کی تعداد زیادہ تھی۔جب تک سراعجاز اورالحھجرۃ سکول جیسے ادارے اور افراد موجود ہیںپاکستان کا مستقبل روشن رہے گا۔