جمعرات کی علی الصبح لاہور سے کوئٹہ جانے والی مسافر ٹرین اکبر بگٹی ایکسپریس صادق آباد میں مال گاڑی سے ٹکرانے کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 23افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 84بتائی جاتی ہے۔ یہ ٹرینوں کا پہلا حادثہ نہیں ہے، جب سے شیخ رشید وزیر ریلویز بنے ہیںقریباً ستر حادثات ہو چکے ہیں۔ ابھی تین ہفتے قبل ہی 20 جون کو حید رآباد کے قریب جناح ایکسپریس اسی طرح کے سنگین حادثے کا شکار ہوئی، اس میں بھی یہ ٹرین سٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرائی جس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقت شیخ صاحب نے ٹرین ڈرائیور جو حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھاپر مدعا ڈال کر اور لواحقین کے لیے امدادی رقوم کا اعلان کر کے جان چھڑائی تھی۔ اسی طرح 17 مئی کو سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کے علاقے پڈعیدن کے قریب لاہور سے کراچی آنے والی مال گاڑی کے حادثے کے باعث کراچی سے ٹرینوں کی آمدورفت متاثر ہوئی۔یکم اپریل کو رحیم یار خان میں مال بردار ریل گاڑی 'پی کے اے34' کی 13 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں جس سے محکمہ ریلوے کو نہ صرف لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ملک بھر میں مسافر ٹرینوں کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ 24 دسمبر 2018ء کو فیصل آباد میں شالیمار ایکسپریس کو پیچھے سے آنے والی ملت ایکسپریس نے ٹکر ماردی تھی، حادثے میں ایک مسافر جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے تھے۔27 ستمبر 2018ء کو دادو میں سن کے قریب ٹرین کی گیارہ بوگیاں پٹڑی سے اترگئی تھیں جس کے نتیجے میں 5 مسافر زخمی ہوگئے تھے۔حالیہ حادثہ جس کی سنگینی جانی اور مالی نقصان کے حوالے سے سب سے زیادہ ہے کی وجہ بھی کانٹا نہ بدلنا بتایا جا رہا ہے۔ گویا کہ حادثات کو انسانی غفلت کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔ شیخ صاحب نے حادثات کے لیے کرپشن کو موردالزام ٹھہرایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کرپشن ہمارے نظام میں سرایت کر چکی ہے لیکن یہ کہہ کر کہ کرپشن بہت ہے، جان چھڑانا قرین انصاف نہیں ہے۔ محکموں سے کرپشن ختم کرنا انچارج وزیروں کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اپنی حسن کارکردگی دکھانے کے لیے شیخ صاحب نت نئی ٹرینوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے باس عمران خان کو خوش کرنے کے لیے نیازی ایکسپریس چلانے کا بھی اعلان کیا ہے گویا کہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے بغیر ہی نئی ٹرینیں چلانے کا یہی نتیجہ نکلنا تھااور اطلاعات کے مطابق ایک ہی ٹرین کو تین تین ٹرینیں بنا کر چلایا جا رہاہے۔اس میں اصولی طور پر کوئی حرج بھی نہیں۔جیسا کہ ائیر لائنز ایک ہی جہاز کو مختلف روٹس پر چلاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جتنی دیر کمرشل ہوائی جہاز زمین پر کھڑا رہے اتنا ہی نقصان بڑھتا ہے جبکہ جتنی دیر فضا میں رہے پیسے کماتا ہے یہی مثال ریلویز پر بھی منطبق ہوتی ہے بشرطیکہ ریلویز تکنیکی طور پر درست حالت میں ہو،با لکل اسی طرح جیسے جہاز اسی وقت پرواز کر سکتا ہے جب تکنیکی طور پر انجینئرزاسے درست حالت میں ہونے کی کلیئرنس دے دیں۔لیکن لگتا ہے کہ وزیر موصوف کو ان باریکیوں میں جانے کی فرصت ہے اور نہ ہی ادراک۔ تحقیقات اور چھان پھٹک کے بغیر ہی انسانی لغزش کو مورد الزام ٹھہرانا بڑا تیز بہدف نسخہ ہے اور شیخ صاحب اس کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے اور اس دور میں بھی 2016ء میں ایک ٹرین حا دثہ ہو اتھا، انھوں نے فوراً ٹی وی پر آکر مطالبہ داغ دیا تھا کہ کسی بھی ذمہ دار جمہوری حکومت میں وزیر ریلویز کو استعفیٰ دے دینا چاہیے لیکن یہاں تو وزیراعظم نے حادثے پر محض کف افسوس مل کر اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی پر ہی اکتفا کیا ہے۔ شیخ صاحب اپنی ون مین پارٹی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور وہ خم ٹھونک کر حکومت کی وکالت کرتے ہیں۔ فقرے بازی اور فقرے چست کرنا ان پر ختم ہے۔ اسی بنا پر اکثر ٹی وی چینلز کے فیورٹ ہیں کیونکہ وہ اچھی ریٹنگ دیتے ہیں اور اسی لیے ان کی ہمیشہ یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ نیوز چینلز پر’ سولو‘ تشریف لائیں گے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ شیخ صاحب ریلویز سے جان چھڑا کر حکومت کے لیے وہی کام کریں جوان کو آتا ہے۔ ویسے بھی وزارتیں ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہیں کیو نکہ وہ تومیاں نواز شریف کے پہلے دور وزارت عظمیٰ سے لے کر پرویز مشرف تک اور اب بھی وزیر چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے وہ تو کہتے رہتے ہیں کہ ہر وزیر کی کارکردگی کو جانچااورناپا جائے گا لیکن لگتا ہے کہ وزیر ریلویز ان کی سیاسی ضرورت ہیں اس لیے یہاں صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ تازہ لطیفہ وزیر مملکت برائے ریونیو حماداظہرکو انعام کے طور پر وفاقی وزیر ریونیو بناکر یہ قلمدان ایک روز بعد ہی واپس لے لینا ہے۔شاید کسی نے اس باریکی پر غور ہی نہیںکیا کہ وزیر مملکت نوجوان اور ہونہار حماد اظہر جو سابق گورنرمیاں اظہر کے صاحبزادے ہیںجنہوں نے بجٹ تقریر بڑے اعتماد اور خوش اسلوبی سے پڑھی تھی، کی ترقی کے بعد ڈاکٹر حفیظ شیخ جو آئی ایم ایف کی آشیرباد سے وزیر خزانہ اور ریونیو بنے تھے، سے یہ کلیدی محکمہ چلا گیا۔ حفیظ شیخ کے احتجاج پر فوراً ہی موصوف کو ریونیو ڈویژن واپس کر دیا گیا اور حماد اظہر وفاقی وزیر تو بن گئے لیکن انھیں اقتصادی امورجیسی کھڈے لائن وزارت دے دی گئی اسے تو انگریزی میں یہی کہیں گے۔ He has been kicked upstairs جہاں تک پاکستان ریلویز کا تعلق ہے اس کا حال واقعی بہت پتلا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی سے خیبر تک مال برداری کا سڑکوں کے ذریعے نظام بنانے کے لیے فوج کی زیر نگرانی نیشنل لاجسٹک سیل (NLC)بنایا گیا۔ اس طرح ریلویز اپنی آمدن کے بہت بڑے ذریعے سے محروم ہو گیا ۔میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو ان کا سارا زور موٹرویز، ہائی ویز اور ایکسپریس ویز بنانے پر صرف ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر ریلویز جنرل جاوید اشرف قاضی نے اتنا بڑا بلنڈر کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے چین سے ایسی ٹرینیں امپورٹ کیں جو پلیٹ فارموں پر فٹ ہی نہیں آتی تھیں ۔جہاں تک سابق وزیر ریلویزخواجہ سعد رفیق کا تعلق ہے ان کا زیادہ زور رائل پام کلب کو فتح کرنے پرصرف ہوتا رہا۔ دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ملک میں جس کا خیبر سے لے کر کراچی تک تقریباً 1650 کلومیٹر فاصلہ ہے، ریلوے مسافر برداری اور مال برداری کا بہت بڑا ذریعہ ہونا چاہیے لیکن اس طرف سرمایہ کاری کرنا حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں تھا۔ کسی بھی عوامی ذرائع ٹرانسپورٹ میںایک بنیادی اصول ہوتا ہے کہ مسافروں کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ مہذب ملکوں میں تو یہ اصول اتنا مقدس ہے کہ رواں برس کے آغاز میں جب بوئنگ 737کے ایک نئے ماڈل کے یکے بعد دیگرے دو حادثات ہوئے تو ساری دنیا میں اس طیارے کو اڑانے سے روک دیاگیا اور کہا گیا جب تک مطمئن نہیں کیا جاتا کہ یہ مسافروں کے لیے محفوظ ہے اسے اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،300 سے زائد یہ جدید طیارے اب بھی گراؤنڈ ہیں۔ یہاں تو پاکستان ریلویز میں غریب ملازمین کو ایندھن کی طرح جھونکا جاتا ہے۔ شیخ صاحب کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ نمبر بنانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے ریلویز کے انفراسٹرکچر کو ٹھیک کرنے کے لیے حکومت اور بین الاقوامی اداروں سے پیسے مانگتے لیکن شایدا یسا کرنے کا انھیں وقتی طور پر کوئی سیاسی فائدہ نہیں تھا۔