نسل پرستی کسی ایک انسان کا دوسرے انسان پر ذات رنگ و نسل کی بنیاد پر خود کو اعلی اور دوسرے افراد کو کم تر سمجھنے کا نام ہے جس کو نسلی امتیازات سے جانا جاتا ہے۔ نسل پرستی صرف افریقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اسکے اثرات پاکستان سمیت دوسرے بڑے ممالک بھی صدیوں سے پائے جا رہے ہیں۔ جہاں ایک گروہ دوسرے گروہ کو ذات مذہب رنگ اور درجات کی بنیاد دیگر سہولیات اور حقوق و فرائض سے دستبردار کر دیتا ہے۔ نسل پرستی ایک ایسا نظام تھا، جو بنیادی طور پر سفید (برتر نسل)، سیاہ (بدقسمتی سے کمتر) افراد میں نمایاں تھا یعنی یہ نسل پرستی رنگ کی بنیاد پر تھی جہاں حکمرانی، سیاسی کردار اور معاشی وسائل سے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ حکمران خود کو اعلی سمجھتے تھے اور باقی کمتر درجے پر فائز افراد انکے نوکر تھے۔ گورننس اور وسائل پر سفید فاموں کا کنٹرول ہوتا تھا اور دوسری نسلوں کو خدمت اور اطاعت کرنی پڑتی تھی۔ ان کی الگ کالونیاں، نوکریاں اور زندگیاں ایک دوسرے سے الگ ہوتی تھیں اور اب بھی ہیں۔ خاص طور پر سفید فام علاقوں میں داخلہ دوسری نسلوں کے لیے انتہائی ممنوع تھا۔ ہر نسل کا طرز زندگی مختلف تھا اور اب بھی جنوبی افریقہ کے معاشرے میں یہ تفریق دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں نسل پرستی کی ایک مثال موجود ہے جسکا ہمیں کبھی احساس نہیں ہوا، جس میں فرق پوشیدہ اور واضح قوانین کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں مختلف حکومتوں کے دوران واضح طور پر نسل پرستی کے اثرات نمایاں تھے، لیکن پاکستان میں یہ پوشیدہ ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی کسی بھی سرکاری دفتر یا رہائشی علاقوں میں چلا جائے تو یہاں ہر جگہ افراد کو علیحدگی نظر آتی ہے یعنی عہدہ کی بنیاد پر افراد سے رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں پنجاب سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں ذات پات اور مذہبی تفریق بھرپور پائی جاتی ہے ۔ مزید برآں یہ نسل پرستی افرادی قوت میں بھی نظر آتی ہے۔ جو لوگ نچلے کارکنوں میں کام کرتے ہیں انکو درجہ چہارم میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ کلرک مزدور ملازم کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند افسران ایسے ہیں جنکو پاکستان میں بیوروکریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں سہولیات اور مراعات درجات کی بنیاد پر مہیا کی جاتی ہیں۔ بیوروکریٹس کے پاس بڑے بڑے گھر ہوتے ہیں، ان کی دیکھ بھال اور خدمت کے لیے ملازمین کی فوج موجود رہتی ہے ہر جگہ ان کے ساتھ شاہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں شاندار ہاؤسنگ اسکیموں میں پلاٹ، مکانات حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو درحقیقت ان کی طرف سے اور ان کے لیے ہی بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں تنخواہوں کا درومدار بھی اسی درجات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے یعنی تفریق واضح نظر آئے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً ہر سرکاری ملازم کو اپنا حصہ ملتا ہے جو قومی آبادی سے 1 فیصد سے تقریباً کم ہیں۔ ریٹائرمنٹ پر ان کے پاس گھر، پنشن اور نسبتاً مراعات طرزِ زندگی ہوگا۔ پاکستانی معاشرے میں اعلی درجات کے پاس کثیر تعداد میں مراعات ہونے کی وجہ سے ایسے طبقات بھی موجود ہیں جو مشکل سے گزروبسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جن کے پاس سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جسکی وجہ سے شہریوں میں بیگانگی، پسماندگی اورعلیحدگی کو فروغ ملتا ہے۔ ان اعلی افسران کی تعداد کم ہے لیکن درحقیقت میں یہی لوگ پاکستان میں موجود ہر ادارے میں اپنی حکمرانی کرتے نظر آئیں گے جہاں عام عوام جو اپنے حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے کیونکہ انکو رسائی وہاں تک فراہم نہیں کی جاتی۔ اگرچہ پاکستان کا آئین 1973 تمام شہریوں میں برابری اور مساوات کا دعویٰ کرتا ہے۔ میں نے چند مغربی ممالک کا دورہ کر رکھا ہے جہاں ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو دیکھنے سے قاصر ہوں جہاں پر ہر کوئی آزاد ہے جہاں وہ جانا چاہتا ہے لیکن اسے ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کچھ جگہیں خصوصی طور پر ملک کے اشرافیہ خاندانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ مثال کے طور پر، شاید ہی کسی عام آدمی کو اسلام آباد کلب یا گولف کلب میں جانے کی اجازت ہو۔ وہ ایک مخصوص طبقے کے لیے مخصوص ہیں جو اعلی درجہ پر فائز ہیں۔ وہ عام آدمی کو ان سے دور رکھتے ہیں جو ملک میں واضح تفریق کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ نسل پرستی بنیادی طور پر ہندو مذہب سے آرہی ہے، لیکن نوآبادیاتی آقاؤں نے اس میں اضافی خصوصیات بھی شامل کیں۔ جدید لیبر فورس ڈویژن ان غالب خصوصیات میں سے ایک ہے جسے نوآبادیاتی حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ اس طرح یہ نسل پرستی پاکستان کے کسی ایک ادارے تک محدود نہیں ہے۔ ہم ملک کی عدالتوں، پیشہ ور تنظیموں اور ریاستی اداروں کے اندر بھی نسل پرستی دیکھ سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ نسل پرستی کو ختم کیا جائے۔ یہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے لیے بدنما داغ ہے اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک خودمختار قوم ہیں۔ ریاستی حکام اور سیاسی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ نسل پرستی ایک مہذب ملک کی علامت نہیں ہے بلکہ اسے غیر مہذب طرز زندگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ریاستِ پاکستان کو ہر شہری کا خیال رکھنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ ملکی ترقی سے سب برابر لطف اندوز ہو سکیں۔ نسل پرستی میں بیگانگی کا احساس زیادہ ہوگا جس سے نفرت اور انتشار کو فروغ ملے گا جو ملک کے مفاد میں شامل نہیں ہے۔ حکومت کو ریاستی اداروں، وسائل اور گورننس میں شہریوں کی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی تاکہ عوام الناس میں جو درجات کی بنیاد پر فرق رکھا جاتا ہے، اسے کم کیا جاسکے کیونکہ دین اسلام بھی اس چیز کی ممانعت کرتا ہے اور برابری کا درس دیتا ہے۔