وطن عزیزمیں بھی یوم آزادی صحافت خامو شی سے منا یا گیا جیسے کہ پاکستان میں آزادی اظہا ر کا کو ئی مسئلہ ہی نہ ہو ۔ چند اخبارات اور ٹی وی چینلز کے سوا زیادہ تر میڈیا نے اس دن کا نوٹس تک نہ لیا۔ تاہم آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان میں زمینی حقا ئق قدرے مختلف ہیں اور ان کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ گنجا ئش سکڑتی جا رہی ہے حالا نکہ کسی بھی جمہو ری ملک میںمیڈ یا کی آزادی کے بغیر ایک آزاد معا شر ے کو فروغ دینے کے دعوے کھو کھلے ہی ہو نگے کیونکہ حکومتوں، اپوزیشن اور سیاسی پارٹیوں کااصل احتساب آزاد میڈیا کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ انٹر نیشنل فیڈریشن آ ف جر نلسٹس( آئی ایف جے ) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں صحا فیوں کے لئے پانچواں خطر ناک اورغیر محفو ظ ملک ہے۔اس کی رپو رٹ کے مطابق 1990سے کر 2020تک کم از کم 138صحافیوں کو اپنے فر ائض کی بجا آ وری کے دوران قتل کر دیا گیا ۔ اسی طر ح فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے مطابق مئی 2020 سے اب تک صحافیوں پر ان کے کام کے حوالے سے 148 حملے ہوئے جن میں چھ قتل،سات اقدام قتل کے واقعات تھے جبکہ صحافیوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج ہوئے۔فریڈم نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق 21-2020 میں 148 کیسز میں سے 34 فیصد کیس (51 کیس) اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ صحافیوں کے لیے دوسرے نمبر پر خطرناک صوبہ رہا جہاں 26 فیصد یعنی 38 واقعات، پنجاب میں 29، خیبر پختونخوا میں 13،آزاد کشمیر میں نو، بلوچستان میں آٹھ جبکہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان واقعات سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حوالے سے صحافیوں کو مسلسل دھمکایا اور ہراساں کیا جارہا ہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ خلاف ورزیوں کی تین اہم اقسام میں زبانی دھمکیوں کا شمار ہے، جس کے 23 کیس منظر عام پر آئے ہیں، ان میں سے قتل کی دھمکیوں کا شمار (25 فیصد)، آن لائن اور آف لائن ہراساں کئے جانے کے 13 کیس (14 فیصد) اور قتل کی کوششوں کے 11واقعات (12 فیصد) سامنے آئے ہیں جس کے نتیجے میں 7 صحافیوں کا قتل ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک کام کرنے والی جگہ رہی۔رپو رٹ کے مطابق ریا ستی ادارے جن کے فرائض منصبی میں عوام کے آ ئینی حقوق کی حفا ظت کر نا ہے، صحا فیوں کے لیے سب سے بڑاخطر ہ بن کر ابھرے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 سے اپریل 2021 کے دوران اپنے کام کی وجہ سے ایک صحافی کا قتل، گرفتاریوں اور نظربندی کے 10 واقعات، جبری طور پر اٹھائے جانے اور اغوا کے 4 واقعات، براہ راست حملوں کے 16 واقعات، دھمکیوں کے 13 واقعات، چھاپوں اور حملوں کے 4 واقعات، انٹرنیٹ پر بڑی پابندی یا بلیک آؤٹ کے 5 واقعات، پیمرا کی 22 ہدایات جو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگنے کاباعث تھیں۔ صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے 7 واقعات اور قانون سازی کی 6 مثالوں نے پاکستان میں آزادانہ اظہار رائے کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ محتر مہ شیر یں مزاری کی سر برا ہی میں وزارت برا ئے انسانی حقو ق کویہ کر یڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے صحا فیوں کی حفا ظت یقینی بنانے کے لیے ایک قانونی بل پیش کیا ہے جس کی بنیا دیہ رکھی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سر براہی میں کمیشن میڈ یا کے مسا ئل پر غور کر کے حل تجو یز کر ے گا لیکن یہ مجو زہ بل وزارت قانون کی فائلوں میں دفن ہو گیا اور آج تک طا ق نسیاں میں پڑا ہے۔ دوسر ی طرف میڈ یا کو کئی اطراف سے خطرات لا حق ہیں اور اس پر مستزادیہ ہے کہ میڈیا مجمو عی طور پر اقتصا دی بحران کا شکا ر ہے اور اس کی وجہ بنیا دی طور پر حکومت کی طرف سے جاری کردہ سرکا ری اشتہا رات کا حجم کم ہونااور بجٹ میں نما یاں تخفیف ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد جب فواد چودھری پہلی بار وزیر اطلاعات بنے (اب وہ دوسری بار وزیر اطلاعات ہیں)، ان کا منفرد اندا ز اور منطق تھا کہ اخبارات کس منہ سے سر کا ری اشتہارات مانگتے ہیں حالانکہ میڈیا کی آزادی کا تقا ضا ہے کہ ان کو سرکا ر کی طرف سے اشتہار نہ ملیں بلکہ مارکیٹ سے ریونیو جنریٹ کیا جائے۔ مزید برآں اخباری تنظیموں کے اجلاسوں میں وزیر اطلا عا ت اپنا مو بائل فون لہرا کر کہتے تھے کہ اخبارت ،ٹیلی ویژن اور ریڈیو فرسو دہ ہو چکے ہیں ، اب میڈیا یہ موبائل فون ہے ، اس پر سب کچھ ہو گا ۔ میڈیا اور صحا فیوں پر ایک اور بڑ ی افتا د اس صورت میں نا زل ہو ئی ہے کہ وہ میڈیا اور صحا فی جو راہ راست پر نہیں آتے ان کے لئے تیر بہدف نسخہ یہ آزمایا گیا ہے کہ اخبارات سے ڈیل کر نے کے لیے ایک انتہا ئی سخت سنٹرلائزڈ پالیسی اختیا رکی گئی ہے گو یا کہ میڈیا کے لیے ون ونڈوآپر یشن سسٹم بنا دیا گیا ہے۔اس نظام کے تحت تابعداری کو اشتہارات سے مشروط کردیا گیا ہے ۔ یوم اظہا ر را ئے کے موقع پر وزیر اطلا عا ت فو اد چودھری نے آزادی صحا فت پر یقین رکھنے کی بھرپور یقین دہا نی کرائی اور پھر اسی قسم کا بیان لیڈر آف اپو زیشن میاں شہبا زشریف نے دیا جو کہ بڑا خو ش آئند ہے لیکن ان باتوں پر عمل درآمد بھی تو ہونا چا ہیے ۔ زمینی حقا ئق تو خا صے افسو سناک ہیں ۔ حا ل ہی میں معروف صحا فی اور پیمرا کے سابق چیئر مین ابصار عالم پر جب وہ اپنے گھر کے قر یب ہی سیر کر رہے تھے ،فا ئرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ابصار عالم زخمی ہو ئے لیکن حکومت آ ج تک حملہ آوروں کا سرا غ نہیں لگا سکی کیا حکومت اتنی بے بس ہو چکی ہے ؟