چلیں پہلے تو حکمرانوں ،خاص طور پر وزارت خارجہ کے بابوؤں کے ساتھ تالیوں سے بلکہ باجے تاشے سے جشن مناتے ہیں کہ ’’50سال‘‘ بعد سلامتی کونسل ،جمعۃ المبارک کے دن اس بات پر غور کرے گی کہ واقعی کشمیریوں پر اتنے بڑے مظالم ڈھائے جارہے ہیں جن پر وہ مذمتی قرار داددلائے۔سلامتی کونسل کے دس غیر اہم رکن ممالک کا کردار تو خیر سے قرار داد آبزرور سے زیادہ نہ ہوگا۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ عالمی تاریخ میں اس نئے پیمانے پر بھارتی مظالم ڈھانے پر جس میں اب تک 70ہزار سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں،کیا سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے چار یعنی امریکہ ،برطانیہ،فرانس، روس ،پانچویں رکن ، چین کی درخواست پر بلائے جانے والے اس اجلاس میں اس بات کی زحمت گوارہ کریں گے ۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل کے مروجہ آئین کے مطابق اگر پانچ میں سے ایک رکن بھی قرار داد کو ’’ویٹو‘‘کردے تو پھر یہ بے حس ،سفاک عالمی ادارہ لاکھوں کشمیریوں پر ٹوٹنے والے مظالم پر اس حد تک جانے کی بھی جسارت نہیں کرے گا اور ایسا ماضی میں کئی بار ہو بھی چکا ہے۔امریکہ اور سوویت یونین ایک نہیں کئی بار گذشتہ پچاس برسوں میں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کی حد تک پیش رفت تک کا راستہ روک چکے ہیں۔جبکہ یہ وہی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ ہے کہ جب وطن ِ عزیز کو دو لخت کیا جارہا تھا اور بھٹوجیسا بین الاقوامی شہرت یافتہ اسٹیٹسمین شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے دہائی دے رہا تھا تو اس وقت بھی ساری سلامتی کونسل کو سانپ سونگھا ہوا تھا اور جس پر ماضی کے مقابلے میں پاکستانی عوام کا جوش و خرو ش جو 14اور15اگست کو دیکھنے میں آیا، ایک بار پھر وقت گزرنے کے ساتھ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا؟ میرے منہ میں خاک ،ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے تو بظاہر یہی لگتا ہے کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہاتھا پائی،گالم گلوچ اور اپنی اپنی پارٹیوں کے قائدین کی محبت اور عقید ت میں سرشاری سی نظر آئی اُس سے تو یہ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے کپتا ن کی ساری دوڑ بھاگ اور منہ سے نکلتا جھاگ ماضی سے مختلف نہ ہوگا۔مگر اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے۔ان ہی کالموں میں کئی با ر لکھ چکا ہوں کہ ایک بھٹو صاحب کوچھوڑ کر پاکستان کے کسی حکمران اور حکومت نے نیک نیتی اور انسانی جذبے سے کشمیریوں کی جد و جہد ِ آزادی میں کوئی بھی قابلِ ذکر کردار ادا نہیںکیا۔الٹا کشمیر میں اپنی اپنی جماعتوں کے مظفر آباد کی حکومت پر جھنڈے لہرا کر اس کے ساتھ پانچویں صوبے جیسا سلوک کیا۔کشمیر کے نام پرجیالے اور متوالے مشیروں ،وزیروں نے جو لوٹ مار کی ہے۔اگر اس پر کبھی نیب نے توجہ دی تو ایک دوسرے پانامہ کا پینڈورا باکس کھل جائے گا۔یہ لیجئے ،میں بھٹکتا ہو ا ذرا آگے نکل گیا۔گزشتہ کالموں میں جس تنازع کشمیر میں اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں کشمیریوں کے جو کچوکے لگے،اس کو ریکارڈ پر لانا اس لئے ضروری ہے کہ اس طرف کے کشمیر کی نام نہاد قیادت اور ہماری طرف کے حکمرانوں ،خاص طور پر جہادی لشکروں اور سپاہیوں نے بھی ان کے مصائب و آلام میں ’’جرائم ‘‘ کی حد تک اپنا حصہ ڈالا۔ تحریک آزادی ِکشمیر پر کم First Handیعنی چشم دید اور وہ بھی غیر جانبدارانہ تحریریں کم ہی دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔اپنے محدود علم کا اعتراف کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) اکبر خان کی ’’پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت‘‘، ممتاز دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز کی "Crossed Swords"کے بعد ایک نوجوان خاتون اسکالر انعم ذکریا کی کتابBetween the Great Divide: A Journey into Pakistan-Administered Kashmir"میں ہی کشمیر کی 72سالہ خونریز تاریخ بغیر کسی ’’خاکی،جہادی‘‘عینک لگائے نظر سے گزری ۔خاص طور پر نوّے کی دہائی میں تحریک آزادی کشمیر میں جو ایک نیا موڑ آیا اور اس کے بعد جولائی 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جو بھارتی زیر تسلط کشمیر میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا اُس کے لئے میں بہت تفصیل سے اس کتاب سے اقتباسات لینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں نے مصنفہ سے اجازت بھی لی ہے۔کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اول تو فرسٹ ہینڈ اکاؤنٹ ہے۔ دوسرے انتہائی مستند اور غیر جانبدارانہ ہے۔مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے ہمارا علم اس آخری باب پر ہے جب 1948ء کی پہلی چھاپہ مار جنگ کی تیز رفتار کامیابی کو دیکھتے ہوئے بھارتی دہائی پر اقوام متحدہ نے مداخلت کی۔دہائی دینے والا کوئی اور نہیں عالمی شہرت یافتہ ،سحر انگیز سیاست دان ’’جواہر لال نہرو‘‘ تھا۔مگر یقینا اُس وقت کی پاکستانی قیادت ، خاص طور پر اس وقت ہمارے اقوام ِمتحدہ میں مستقل مندوب سر ظفر اللہ خان کو یہ کریڈٹ جائے گاکہ انہوں نے اس وقت کی اقوام ِ عالم کو اس بات پر قائل کیا کہ بھارت کا سرینگر پر قبضہ ناجائز ہے۔اور اس کا حل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بھارت کے زیر تسلط علاقے میں استصواب رائے یعنی ریفرنڈم کرایا جائے۔وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس پر سکھ کا سانس لیا کہ جس سے کم از کم آدھے سے زیادہ کشمیر ،جموں اور لداخ تو ان کے ہاتھ آہی چکا تھا کہ بہر حال اس وقت کی بھارتی فوج تو چند ہزار چھاپہ مار مجاہدین کی یلغار روکنے میں ناکام ہوچکی تھی جو محض سرینگر سے چار میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔جواہر لال نہرو جیسے جہاندیدہ سیاستدان اور دانشور کو علم تھا کہ ایک بار جنگ بندی ہو جائے تو پھر قائد اعظم کے پائے کا تو کیا ان کی خاک ِ پا کے برابر بھی کوئی مستقبل کا پاکستانی سیاستدان نہیں جو کشمیریوں کی پشت پر اقوام عالم کے سامنے کھڑا ہوگا۔اور پھر ہوا بھی یہی۔جواہر لال نہرو کی ایک اور خوش قسمتی یہ کہ اُن کے ہاتھ شیخ عبداللہ جیسا ’’پتہ‘‘ ہاتھ لگ گیا ۔شیخ عبداللہ بہر حال تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے بانیان میں سب سے مشہور اور سحر انگیز سیاستدان تھے ۔سرینگر کے لال چوک پر جب وہ پاکستان سے آئے ہوئے ’’پان ‘‘ کا پتہ دکھاتے تو معصوم آزادی کے متوالے کشمیریوں کا جوش وخروش پر عروج پر ہوتا۔یقینا اگر شیخ عبد اللہ ڈٹے رہتے تو بھارت کے زیر تسلط کشمیر پچاس کی دہائی میں ہی آزادی حاصل کرچکا ہوتا۔مگر اپنے دوست جواہر الال نہروکی حکومت میں 12سال کی قید اور پھر پیرانہ سالی کے سبب شیخ عبداللہ نے محض ہتھیار ہی نہیں ڈالے بلکہ دلّی سرکار کے آگے سربہ سجود ہو کے ایک کروڑ کشمیریوں کی پیٹھ میں وہ چھرا گھونپا کہ جس سے آج بھی خون رِس رہا ہے۔(جاری )