20 مئی 2022ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے ان 25 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سنا دیایا جنہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ حمزہ شہباز نے تحریک عدم اعتماد میں 197 ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب 25 ممبران کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد حمزہ شہباز 172 ووٹ رہ گئے ہیں۔ حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلی برقرار رہنے کے لئے 186 ممبران کی حمایت درکار ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لوٹا کریسی کی سیاست کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس فیصلہ کے بعد لوٹا کریسی کی سیاست پاکستان میں دفن ہو گئی ہے۔اب آئے دن وفا داری بدلنے کا دور حکم ہو گیا ہے۔ اب وفاقی حکومت کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ کہ یہ حکومت کتنے دن کی مہمان ہے۔ شہباز شریف ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ ڈیزل اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کتنا کریں گے اور کب کریں گے۔ جن منحرف ارکان نے اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ان کا برا حال ہے ایک تو وہ اپنی سیٹ سے محروم ہو گئے دوسرے اب نئی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ پہلے ووٹر ایک مسئلہ ہیں۔ جو اس حلقہ میں دوسرا امیدوار ہے پرانی پارٹی کا وہ الگ مسئلہ ہو گا۔ پاکستان کا سیاسی منظر اس وقت بہت بے یقینی کا شکار ہے۔ پنجاب میں اس وقت نہ کوئی وزیر اعلی ہے نہ گورنر۔ دو ماہ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بد انتظامی کا شکار ہے۔ اب کیا ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں۔ پرویز الہی بھی اس وقت مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہیں کر سکتے۔ لگتا ہے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنا پڑے گا۔ اب ان 25 سیٹ پر کب الیکشن ہوں گئے۔ وفاقی حکومت اس وقت دو ووٹ پر کھڑی ہے۔ اب ہوا کا جو رخ ہے لگتا ہے وفاقی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ اس وقت شہباز شریف کے پاس ایک آپشن ہے کہ وہ اسمبلی کو تحلیل کر دیں اور نئے الیکشن کا اعلان کر دیں۔ نواز شریف بھی نئے الیکشن کے حق میں ہیں۔ جناب آصف علی زرداری ابھی فوری الیکشن کے حق میں نہیں ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ضروری ترامیم کر لی جائیں پھر اسمبلی تحلیل ہو۔ اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری ہے شاید یہ اجلاس آخری اجلاس ہو۔الیکشن سے متعلقہ ترامیم اس اجلاس میں ہو جائیں گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ختم کردیا جائے گا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال اس الیکشن میں نہیں ہوگا۔ اور نیب کے قوانین میں تبدیلی ہو جائے گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو اگر ووٹ سے محروم کیا گیا تو اس کے بہت برے اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بہت بڑے ووٹ بینک سے محروم ہو جائے گی۔ جو افراد باہر ہیں وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کی رائے اپنے گھر میں بہت اہم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو دونوں صورتوں میں فائدہ ہے۔ اگر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے گا تو اس کی اکثریت عمران خان کی حامی ہے۔ اگر وہ ووٹ سے محروم ہوتے ہیں تو وہ یہاں اپنے خاندان کو عمراں کی حمایت پر مائل کریں گے۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ عمران خان کے لئے پنجابی کی کہاوت ہے کبے نوں لت راس آگئی۔ اب کبے کا کب بھی نکل گیا۔ شہباز شریف کی جو متھ بنی تھی کہ وہ بہت اچھے منتظم ہیں وہ بھی کافی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ڈالر اس وقت اوپن مارکیٹ میں 205 تک چلا گیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے اس حکومت نے ایک ماہ میں عمران حکومت کے ایک سال کے ٹارگٹ مکمل کر دیئے ہیں۔عمران کی مقبولیت جو زمیں بوس ہونے کے قریب تھی اس کو اب نئی زندگی مل گئی ہے۔اب آنے والے الیکشن پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو ایک مقبول عمران خان کا سامنا کرنا ہوگا جو کہ ایک مشکل کام ہے۔ اب عمران خان اسلام آباد کی طرف کب لانگ مارچ کی کال دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے اس لانگ مارچ کی نوبت نہیں آئی گی۔ مقتدر حلقے اس بات کو جان چکے ہیں اس اکانومی کو فعال رکھنا موجودہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ ان دنوں عدلیہ کے فیصلے بتا رہے ہیں کہ موسم کافی تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کافی اداروں میں پوسٹنگ ٹرانسفر پر پابندی لگا چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجودہ حکومت پر بجلی بن کر گرا ہے۔ صوبہ پنجاب اتحادی حکومت کے ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہونے کی رسمی کاروائی باقی ہے۔ اب چھانگا مانگا سیاست کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ 1951ء سے 1956ء تک وفاداری بدلنے کی روایت نے راتوں رات پنجاب اور مشرقی پاکستان کی حکومتوں کو بدل دیا۔ پاکستان کی حکومت اس تواتر کے ساتھ تبدیل ہو رہی تھی کہ ایک فقرا بڑا مشہور ہوا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو نے اتنی دوھوتیاں نہیں بدلی جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلی۔ اب آئے روز کی تبدیلی کی روایت ختم ہو جائے گی۔ تبدیلی کا حق صرف عوام کو حاصل ہونا چاہئے وہ جس کو چاہیں پانچ سال کے لئے حکومت کرنے کا اختیار دیں۔ اب پاکستان پر حکومت کرنے کے لئے معین قریشی اور شوکت عزیز کی ضرورت نہیں ہے جن کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔ عوام جس کو چاہیں حکومت کے لئے منتخب کریں۔ پاکستان پر پاکستانیوں کا حق ہے اس پر ناں امریکہ کا حق ہے ناں کسی اور کا۔ تبدیلی صرف ووٹ کی طاقت سے ہوگی۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا اصول اب نہیں چلنے والا۔ گرمیوں کے موسم میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے ٹھنڈی ہوا کا آنا اچھا شگون ہے۔ اب الیکشن کے میدان کے سجنے کا موسم ہے۔ فصلی بٹیروں کو اس بار پناہ ملنی مشکل ہے۔