پاکستان اسٹیل ملز کی بندش یقینا پاکستانی معیشت کے مستقبل کے لئے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ اسٹیل مل ،کسی بھی ملکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستانی معیشت کی بنیاد زراعت پر تھی اور ہے۔ ۔ ۔ مگر زرعی ملک کی حیثیت سے کیوں کہ ساری زمینیں جاگریداروں اور زمینداروں کی ملکیت میں رہیں۔جس سے ہاریوں اور عام کسانوں کو بس اتنا ملتا کہ گھر کا چولہا جل جائے۔اسی فیوڈلزلم کے سبب آج پاکستان میں غربت سے نیچے کی لکیر یعنی ایک ڈالر (160روپے) یومیہ کمانے والوں کی تعداد دو کروڑ کے قریب ہے۔اور اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ اُن دو کروڑ غربت سے نیچے کی لکیر میں زندگی گذارنے والوں کے سبب ملک کی آبادی کا 60فیصدیعنی 12کروڑ عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ زراعت کے بعد کسی ملک کی خوشحالی کا انحصار اُس کی صنعت میں ہوتا ہے۔زرعی ملک ہونے کے سبب پاکستان اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے سال دو پہلے تک ایکسپورٹ کا 80فیصد زرمبادلہ کماتا تھا۔مگر ہمارے صنعت کاروں ، سرمایہ داروں نے تو اپنی امپائرز کھڑی کروائیں۔مگر مزدور یعنی محنت کش ،غربت کی چکّی میں پستے رہے۔اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا اور ہے کہ قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہمارے سویلیں حکمران ہوں یا عسکری۔ ۔ ۔ اُن کی اولین ترجیح اپنا اقتدار اور اپنی آل اولاد کے ساتھ ایک خاص اشرافیہ کی پرورش کرنا تھا۔جس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہو۔1970ء کی دہائی تک وطن ِ عزیز میں کوئی بڑا صنعتی پلانٹ نہ تھا۔اُس کا ایک سبب ہمارے حکمرانوں کی امریکہ دوستی بھی تھی جو ’’ایڈ‘‘ تو اپنے سامراجی مقاصد کے لئے دیتے تھے ۔ ۔ ۔ مگر انہوں نے کبھی ایسے میگا صنعتی پراجیکٹ کے لئے امداد نہیں دی ،جس سے پاکستانی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی۔ امریکی دوستی سے لازمی طور پر اشتراکی چین اور روس دشمنی تو ہمیں ملنی ہی تھی۔مگر یوں ’’اشتراکیت‘‘ یعنی Communism ہمارے حکمراں طبقے کے لئے یوں بھی ایک ڈراؤنا خواب رہا۔ مجھے اس با ت کا احساس ہے کہ تمہد طول پکڑ رہی ہے ۔مگر پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ’’سرد جنگ‘‘ کے عین عروج پہ سوویت یونین نے 1956ء میں پاکستان میں اسٹیل ملز لگانے کی پیشکش کی تھی۔ مگر 1956ء تو وہ ما ہ و سال تھے جب مسلم لیگی قیادت باہم دست و گریباں ہو کر جنرلوں کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف کررہی تھی۔ایسے میں ’’اسٹیل ملز‘‘ جیسے منصوبوں کو تو سرکاری فائل میں دفن ہونا ہی تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا مارشل لاء ۔ ۔ ۔ ایک حقیقت تھی۔ ۔ ۔ ابتدائی برسوں میں ہنگامی بنیادوں پر ملکی معاشی ترقی پر زور بھی دیا گیا۔ ۔ ۔ اور اس کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ مگر جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب باہر سے آئے تھے۔بلکہ اصل میں واشنگٹن کے آدمی تھے۔اُن کا فلسفہ تھا کہ پاکستان میں میگا صنعتی پراجیکٹ نہیں لگنے چاہئیں ۔کیوں کہ وہ ہمارے جیسے ملکوں کے لئے سفید ہاتھی بن جاتے ہیں۔اُس کے لئے وہ ریلوے اور واپڈا کی مثال دیا کرتے تھے۔مگر اُس دوران ایوب خان کی کابینہ میں ڈاکٹر محبوب الحق اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے Visionaryبھی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔خود ایوب خان بھی 1964ء کی جنگ اور الیکشن میں کامیابی نہ صرف پُر اعتماد ہوچکے تھے بلکہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے تھے کہ پاکستان کے مستقبل اور ملکی معیشت کے استحکام کے لئے اسٹیل ملز جیسے اداروں کا قیام ضروری ہے۔ یوں جب 1967ء میں ایوب خان نے روس کا پہلا دورہ کیا تو اس میں اسٹیل ملز کے قیام کے لئے دوطرفہ معاہدہ ہوا۔1969ء میں ایک انڈسٹریل کمپنی نے ابتدائی کام کا آغاز کیا۔ ۔ ۔ مگر پھر یہی وہ دور تھا جب ایوب خان کے خلاف ایک ہنگامہ خیز عوامی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ایوب حکومت کا زوال 1970ء انتخابات اور پھر اس کے نتیجے میں سقوط ِ ڈھاکہ کے ہنگام میں اسٹیل ملز یا ملکی معیشت کی کسے فکر تھی ۔ ۔ ۔ بھٹو صاحب نے جن مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اُس کی تفصیل میں جانا اپنے آپ کو دُہرانے کے مترادف ہے۔93ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی اور پھر شملہ معاہدہ کے بعد بھٹو صاحب کی اولین ترجیحات میں ایٹم بم کا حصول اور پاکستان اسٹیل ملز کا قیام تھا۔بھٹو صاحب کیوں کہ پانی ،بجلی اور قدرتی وسائل کے وزیر رہ چکے تھے۔ اس لئے اسٹیل ملز اور اُس کے ساتھ پورٹ قاسم کی جگہ کا تعین خود انہوں نے کیا تھا۔اسٹیل ملز اور پورٹ قاسم آج جس مقام پہ ہیں اُس کے لئے کم و بیش 20ہزار ایکڑ رقبے کی ضرورت تھی۔اور ساتھ ہی اُس کے ساتھ لگا سمندر ۔ ۔ ۔ 1972ء میں بھٹو صاحب نے روس کے دو ،دورے کئے۔اور پھر 1973ء میں پاکستان اسٹیل ملز کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔لاگت کا تخمینہ25ارب روپے لگایا گیا تھا۔اُس وقت کے اشتراکی روس کے لئے یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں تھی۔مگر پاکستان اسٹیل ملز جیسے دیو ہیکل پلانٹ لگانے کی صلاحیت اور تجربہ پاکستانی انجینئروں کو نہ تھا۔ ۔ ۔ جس کے لئے کم و بیش 5ہزار روسیوں کی پاکستان آمد ہوئی۔کیوں کہ اُ ن کا قیام طویل المدتی تھا۔ ۔ ۔ اس لئے اُن کے لئے ایک علیحدہ کالونی بنانا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ۔ ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’سرد جنگ‘‘ کے اِس دور کے اشتراکی روس کی مدد سے اسٹیل ملز جیسا دیو ہیکل پراجیکٹ جس کے لئے 5ہزار روسی بھی پاکستانی سرزمین پر ہوں۔ ۔ ۔ ہمارے روایتی دوست کو امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا۔امریکیوں کی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے خفیہ منصوبے پر تو گہری نظر تھی ہی بلکہ برہمی کی حد تک وہ بھٹو حکومت کے مخالف ہوچکے تھے۔اشتراکی روس کے تعاون سے اسٹیل ملز کے قیام نے انہیں مزید مشتعل کیا۔1976ء میں لاہور میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو جو ’’ساری دنیا ‘‘ کے لئے ایک مثال بنانے کی دھمکی دی تھی ،اُس کا سب سے بڑا سبب تو ہمارا ایٹم بم ہی تھا۔مگر جس تیزی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اشتراکی روس اور ماؤ کے چین کی طرف اپنا قبلہ بدل رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ہی صرف امریکہ پر انحصا ر کے بجائے روس اور چین سے جو تجارتی اور صنعتی معاہدے ہور ہے تھے ،اُس پر واشنگٹن میں بیٹھے خود سر رہنماؤں نے پاکستان پر ’’سرخ دائرہ ‘‘لگا دیا تھا۔ اب پھر مشکل درپیش آرہی ہے کہ اصل موضوع یعنی ’’اسٹیل ملز‘‘ پر کیسے چھلانگ لگاؤں کہ کالم آخری دموں پر آرہا ہے۔۔۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک ایگزیکٹو فیصلے کے ذریعے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ساتھ ہی 9ہزار ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر یہ حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ حکومت 500ارب کے قرضوں کا بوجھ اٹھانے کے بعد مزید ایک روپیہ بھی اس ’’ڈوبتی ٹائٹینک ‘‘ میں لگانے کے لئے تیار نہیں۔ ۔ ۔ (جاری ہے)