اتفاق دیکھیے ، قوم پرستوں اور اسلام پسندوں نے پاکستان کو بیک وقت نشانے پر لے رکھا ہے۔ ہر گروہ کی جیب میں اپنا ایک پاک باز مرد قلندر ، درویش اور جری رہنما موجود ہے اور ہر گروہ کے نزدیک پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی غلطی ہائے مضامین کے سوال کچھ نہیں۔خطے کے جملہ مسائل کی ذمہ دار پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے اور خطے میں امید کی کرن صرف وہ عظیم ہستی ہے ،ہر گروہ نے اپنے اپنے ’’ بٹوے‘‘ میں جس کی فوٹو سجا رکھی ہے۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان میں تو کبھی جمہوری حکومت آنے ہی نہیں دی گئی اور عمران خان تو ایک سو ایک فیصد مسلط کیا گیا ہے لیکن اشرف غنی بابا سے ملنے جاتے ہیں تو ایسے عقیدت سے تصویر بنواتے ہیں جیسے کابل کی یہ کٹھ پتلی دو تہائی اکثریت لے کر صدارتی محل میں تشریف لائی ہو اور شرق سے غرب تک اب نرگس اپنی بے نوری پر چار ہزار سال روئے گی جب اشرف غنی بابا جیسا کوئی رجل رشید پیدا ہو پائے۔پاکستانی فوج کا ذکر چل پڑے تو انگاروں پر لوٹتے ہیں اور افغان فوجی افسران کے ہاتھوں میں یوں ہاتھ ڈالے پھرتے ہیں جیسے ابھی ابھی ہنی مون سے لوٹے ہوں۔پنجاب کی طرف ان کا رخ انور غلطی سے بھی ہو جائے تو ان کے تیور بگڑ جاتے ہیں اوریہ لاہور تک کی تباہی کے مطالبات کے سندیسے بھیجتے ہیں لیکن اشرف غنی بابا کے مقابل عبد اللہ عبدللہ بھائی جان کی صدارت پر یہ یوں خاموش ہو جاتے ہیں کہ نہ ان کے ’’ لر‘‘ کی کوئی خبر ملتی ہے نہ ان کے ’’ بر‘‘ کا کچھ پتا چلتا ہے۔ اسلام پسندوں کا معاملہ اس سے بھی سنگین ہو چکا ہے۔ادھر ادھر ہر ملک میں ہر گروہ کا ایک اپنا قائد اسلام موجود ہے اور اب امت کی نشاۃ ثانیہ کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ اس قائد اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جایا جائے۔ یہ پورے جذبے کے ساتھ اپنے اپنے مجاہد اسلام کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان میں اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان نے تو پوری تاریخ میں کبھی ڈھنگ کا فیصلہ کیا ہی نہیں۔فرقہ وارانہ تقسیم سے ہٹ کر امیدوں کا تازہ مرکز رجب طیب اردوان ہیں۔ہمارے حکمرانوں نے تو چونکہ لٹیا ہی ڈبو دی ہے اس لیے اب امت کے نجات دہندہ ہیں۔کیا آپ کو معلوم ہے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ’’اعزاز‘‘ کس ملک کے حصے میں آیا؟ ضرورت سے زیادہ سادہ لوح اورجذباتی قوم کو معلوم ہونا چاہیے یہ ’’ اعزاز‘‘ ترکی کے حصے میں آیا۔جب 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ ہو رہی تھی توایک مسلمان ملک ایسا بھی تھا جس نے اسرائیل کو ’’ غاصب قوت‘‘ قرار دینے کی مخالفت کی تھی۔وہ ترکی تھا۔رباط میں او آئی سی کانفرنس میں جب اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی قرارداد لائی گئی تو ترکی نے اس کی بھی مخالفت کی ۔پھر طیب اردوان آ گئے۔ اقتدار سنبھالنے کے دوسرے ہی سال اسرائیل جا پہنچے۔ کس لیے؟ خود ترکی کے جاری اعلامیے کے مطابق : تجارتی اور عسکری تعاون کے فروغ کے لیے۔پیپسی کا بائیکاٹ کر کے اسرائیل کو تباہ کرنے کی خواہش رکھنے والے سادہ لوحوں کو کچھ خبر ہے کہ اسرائیل اور ترکی کی باہمی تجارت کاحجم کیا ہے؟ دو بلین ڈالر۔دنیا بھر میں اسرائیلی ایکسپورٹ کی پانچویں بڑی منزل ترکی ہے۔کیا ہمیں معلوم ہے کہ ترکی نے ایف فور اور ایف فائیو طیاروں میں جدت کا 900ملین ڈالر کا معاہدہ کس سے کیا؟ اسرائیل سے۔کیا ہمیں خبر ہے ترکی نے ایم سکسٹی اے ون ٹینکوں کی اپ گریڈنگ کا 687ملین ڈالر کا معاہدہ بھی اسرائیل ہی سے کیاہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ اسرائیلی پائلٹ سال میں آٹھ دفعہ ترکی آتے ہیں اور قونیہ کے قریب ان کی باہمی مشقیں ہوتی ہیں؟یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ترک سیاح اسرائیل جاتے ہیں اور اسرائیل سیاح ترکی آتے ہیں۔لیکن کیا آپ کو یہ بھی علم ہے کہ اسرائیل کے سیاحوں کو ترکی آنے کے لیے کسی ویزے کے بھی ضرورت نہیں ہوتی؟ کہنے کو تو 2012ئمیں طیب اردوان نے کہہ دیا کہ ہمیں اسرائیلی سیاحوں کی ضرورت نہیںاور امت نے اس بیان پر انہیں بہت داد بھی دی لیکن وہ جانتے تھے اسرائیلی سے آنے والے سیاح ترکی کی معیشت کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں چنانچہ اس بیان کو انہوں نے اپنی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ 2013ئمیں اسرائیل ایئر پورٹ اتھارٹی کے اعدادووشمار کے مطابق سب سے زیادہ مسافر اسرائیل لانے اور لے جانے میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ترکی ایئر لائن رہی۔ ہمارا تاریخ کا فہم انتہائی ناقص ہے اور ہم اسے عقیدت کی نظر سے پڑھتے ہیں اس لیے ہمارے نتائج فکر بھی ہماری اپاہج فکر جیسے ہی ہیں۔یہاں ترکی کی خارجہ پالیسی زیر بحث آئے تو کہا جاتا ہے یہ کام اردوان نے تو نہیں کیا یہ ان سے پہلے ہو چکا تھا۔ گویا ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردوان سے پہلے پرانا ترکی تھا اور طیب اردوان نے ایک عدد ’’ نیا ترکی‘‘ بنا دیا۔ جزوی طور پر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ترکی کی پالیسیاں ترک قوم کے مفادات کی روشنی میں طے ہوتی رہیں اور ہو رہی ہیں اس میں اردوان سے پہلے اور بعد کی کچھ زیادہ تقسیم نہیں ہے۔ترکی کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون آج بھی وہی یں جو سیکولر ترکی کے تھے۔ بس اتنا فرق آیا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کی مسلسل کوششوں میں ناکامی کے بعد اردوان اب امت مسلمہ کی قیادت کے دعویدار ہیں ۔میدان بدل چکا ہے اور ترجیحات بھی ۔حقیقت مگر یہ ہے کہ ان ترجیحات کا محور بھی نیشن سٹیٹ کے مفادات ہیں۔اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔کسی ملک سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ ہر ملک کو اپنے مفاد کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی بنانے کا حق حاصل ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہمارا قوم پرست اور مذہبی طبقہ یہ حق اپنے ملک پاکستان کو کیوں نہیں دیتا کہ وہ بھی اپنے مفاد کی روشنی میں پالیسی وضع کر سکے؟دوسروں کی ہر خامی اور خرابی کو یکسر نظر انداز کر کے ان کی تحسین کرتے رہنا اور اپنے ملک کی ہر پالیسی میں سے بیٹھ کر کیڑے نکالتے رہنا بھی فکر کی دنیا میں کسی کرونا وائرس سے کم نہیں۔