گزشتہ چند ہفتوں میں حکومت پاکستان نے متعدد ایسے فیصلے کیے جو پاکستان کی لیڈرشپ اور اس کے اداروں کی خوداعتمادی کے مظہر ہیں۔ سیاحت کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچ کر ویزہ حاصل کرنا یا پھر آن لائن ویزہ جاری کرنے جیسے اقدامات کا اعلان غیر معمولی قوت فیصلہ اور اعتماد کی علامت ہے۔ سیاح تو دور کی بات پاکستانیوں کے بیرون ملک دوستوں اور شراکت داروں کے لیے کل تک ویزہ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ امکان ہے کہ اب رفتہ رفتہ ہزاروں نہیں لاکھوں سیاح پاکستان کا رخ کریں گے۔ چند برسوںمیں سیاحت پاکستان کی اکانومی کا ایک بڑا شیئر ہولڈر ہوسکتاہے۔ پاکستان دنیا کے ان چندملکوں میں ایک ہے، جسے قدرت نے بیک وقت فلک شگاف پہاڑوں، صحراؤں اورطویل ساحلی پٹی سے نوازا ہے۔تفریح کا ہر سامان یہاں پایاجاتاہے۔کئی ایک مذاہب خاص کر سکھوں اور بدھ مت کے مقدس یا تاریخی مقامات کا مسکن ہے۔ ان مقامات ہی کو محض یاتریوں کے لیے کھول دیا جائے تو لاکھوں سیاحوں کی آمد شروع ہوسکتی ہے۔قدیم تہذیبوں کے مظاہر بھی جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں خاص کر سندھ میں۔جس طرح ترکی، ازبکستان اور آذربائیجان میں ہرسال لاکھوں سیاح جاتے ہیں اسی طرح پاکستان بھی اس خطے میں سیاحت کا ایک بڑا مرکز بننے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتاہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ریلوے روڑ راولپنڈی صدر کے عام سے ہوٹلوں میں جاپانی، آسڑیلین، جرمن اور کئی ایک یورپی ممالک کے شہری سیر وتفریح کے قیام پذیر ہوتے تھے۔ بڑی یونیورسٹیوں ، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں عرب ، افریقہ، ملائیشیا سمیت دنیا بھر کے طلبہ وطالبات حصول علم کے لیے چلے آتے۔غالباً1988ء کی بات ہوگی۔ کچھ دوستوں کے ہمراہ گلگت جانے کا پروگرام بنا۔ گورنمنٹ کی بس اس روٹ پر چلا کرتی تھی ۔ لگ بھگ تیس گھنٹوں میں گلگت پہنچاتی ۔ ہمسفروں میںچند غیر ملکی بھی‘ جن میں زیادہ تر جاپانی تھے جو کوہ پیمائی کی غرض سے اس علاقے کا رخ کررہے تھے حالانکہ اس زمانے میں شاہراہ ریشم پر سفر موت کے کنوئیں میں رقص کرنے کے مترادف سمجھاجاتاتھا۔ نائن الیون کے بعد یہ دیار ایسا اجڑا کہ پرائے تو پرائے اپنوں نے بھی وطن کا رخ کرنا بند کردیا۔ افغانستان کی جنگ دیمک کی طرح پاکستان کے وسائل، سماج اور امن کو چاٹ گئی۔افغانستان جہاں عالمی طاقتوں کے لیے قبرستان ثابت ہوا وہاں اس نے پاکستان کی معیشت اورسماج کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔بیرون ملک پاکستانیوں کے اہل خانہ اب سپین، وسطی ایشیائی ممالک اورترکی کو سیر وتفریح کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ دھماکے، خوف ودہشت کا ایک ایسا ماحول بنا کہ دفتروں،گھروں اور بازاروں میں سیکورٹی گارڈز کے دستے کے دستے نظرآنے لگے۔ سرکاری عمارتوں کے اندر جانا درکنار قریب کھڑے ہونے سے بھی ڈرلگتا۔ مساجد اور خانقاہیں جو امن وسکون کا گہوارہ تھیں وہ بھی محفوظ نہ رہیں۔ ریاستی اداروں کو دہشت گردوں نے سینگوں پر اٹھالیا۔ قربانیوں، جدوجہد او رمسلسل کوششوں سے آخر کار نہ صرف دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی بلکہ افغان طالبان کے امریکاکے ساتھ مذاکرات کے کامیاب انعقاد نے امریکی انتظامیہ ، کانگریس، فوج اور رائے عامہ کے سامنے پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کو ایک بار پھر مثبت انداز میں اجاگر کیا ۔شکوے شکایات اور دھمکیوں کی زبان بدل چکی۔ پاکستان کے کردار کی تعریف کی جانے لگی ۔ وزیراعظم عمران خان خوش قسمت ہیں۔ انہیں ماضی کی حکومتوں کے برعکس نسبتاً ایک پرامن پاکستان ملا ۔ امریکا بھی آج مہربان ہے اور افغانستان بھی پاکستان کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرتاہے۔کل تک عالم یہ تھا کہ واشنگٹن، کابل اور دہلی سے بیک وقت پاکستان کے خلاف شعلے اگلے جاتے تھے۔ دوغلا کہاجاتا۔ طعنہ دیاجاتاکہ ہمارے اربوں ڈالر ہڑپ کرکے دغادے گیا۔ عالم عرب کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والی گرم جوشی بھی بے مثال ہے۔ اگر چہ قطراور دیگر عرب ممالک کے مابین زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان نے بڑی مہارت سے دونوں فریقوں کے ساتھ روابط کو نہ صرف برقراررکھا بلکہ مزید گہراکیا اور اقتصادی مفاد حاصل کیا۔پاکستان خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایک درست سمت میں گامزن ہے۔ افغانستان میں اگر ایک بار امن قائم ہوگیا تو پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی۔ وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے۔عالمی سطح پر پاکستان کا امیج ایک معتبر اور صلاح جو ملک کا ابھرے گا جو تنازعہ پیدا نہیں بلکہ تنازعات کے حل میں کردار ادا کرتاہے۔ ادق مسائل کے حل ، دہشت گردی پر قابو پانے اور مشکل ترین حالا ت میں مخالف طاقتوں کے سامنے ڈٹے رہنے جیسے ہنر سکھانے کا پاکستان کا مرکز بن سکتاہے۔ پاکستان کے تجربات سے سیکھنے کے لیے دنیا بے تاب ہوسکتی ہے بشرطیکہ پاکستان اور اس کے ادارے خطے میں امن کے قیام کے لیے جاری کوششوں میں سستی نہ آنے دیں۔آنے والی نسلیں بھول جائیں گی کہ پاکستان کو’’ دہشت گردی‘‘کا محور ہونے کا کبھی طعنہ بھی دیاجاتاتھا ۔ مکالمے ، ثالثی اور تنازعات کے حل کا مرکز پاکستان قرارپاسکتاہے۔ یہ اس کی نئی شناخت بن سکتی اگر ہمارا عزم متزلزل نہ ہواتو۔انشااللہ۔ گیلپ پاکستان رائے عامہ کی رجحانات چانچنے والے اداروں میں ممتاز نام اور ساکھ کا حامل ہے۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا شمار پاکستان کے ذہین ترین شخصیات میں ہوتاہے۔ ان کی سربراہی میں گیلپ نے اپنے ایک حالیہ سروے میں بتایا :پاکستانیوں کی اکثریت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ماضی کے حکمرانوں کے برعکس ایک بے لوث اور مخلص حکمران تصور کیاجاتاہے جو دھن دولت جمع کرنے کے بجائے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر نیت ٹھیک ہوتو اللہ تعالے ابھی مدد فرماتے ہیں۔حالیہ معاشی اصلاحات نے بھی حکومت کا ایک بہتر تاثر قائم کیا ہے۔