بین الاقوامی تعلقات میں دفاع یا دشمن سر زمینوں پر قبضے کی خواہش پہلا مقصد ہے ، تجارت اورمعاشی فوائد بعد کی باتیں بعد میں ہیں، پاکستان کو مشرق میں بھارت اور مغرب میں روس سے خطرہ در پیش تھا، اس خطرے نے 1970ء میں عملی شکل اختیار کرلی ، جب اندرا گاندھی کے دورۂ ماسکو میں دفاعی معاہدہ طے پایا، یہ دفاعی معاہدہ امریکہ کے خلاف تھا نہ چین کے، بلکہ یہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی دستاویز تھی، ان خطرات کی پیش بینی کرتے ہوئے ہماری قیادت نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کیا، اولاً امریکہ اپنے اتحادی یورپ سے نو آبادیاتی نظام ختم کرکے قوموں کی آزادی کا مطالبہ کررہا تھا، وہ انسانی حقوق ، فرد کی آزادی اور جمہوریت کا علمبردار تھا۔عین انہی دنوں روس تیزی کے ساتھ اپنی ہمسایہ آزاد ریاستوں کو ایک ایک کرکے نگلتا جارہا تھا۔ اگر ہم روس اور امریکہ کے اتحادیوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو فیصلے کی افادیت واضح ہوجاتی ہے،روس سے الحاق یا زیرِ قبضہ ملکوں کے عوام کی معاشی حالت نظریے کی آزادی اور تشخص کو سنگین خطرات لاحق تھے مثلاً امریکہ سے شکست کھانے والا جاپان اور اس سے بھی بڑی مثال جرمنی کی دی جاسکتی ہے، دوسری جنگ عظیم میں شکست کھانے والا جرمنی فاتح امریکہ اور روس کے درمیان تقسیم کے بعد چند ہفتوں میں دونوں کی حالت میں نمایاں فرق نظر آنے لگا، امریکہ کے زیرِ قبضہ جرمنی تیزی سے ترقی ، خوشحالی اور آزادی کی منزلیں طے کرکے دنیا میں صفِ اول کی اقتصادی اور صنعتی طاقت بن رہاتھا، بالکل یہی حالت شکست کھاجانے والے جاپان کی تھی، اس کے مقابلے میں روس کے اتحادی اور زیرِ قبضہ علاقوں کے لوگ نہ صرف آزادی سے محروم ہوئے بلکہ تیزی سے غربت اور پسماندگی کا شکار ہورہے تھے، پاکستان کو بیک وقت سرحدوں کی حفاظت اور قوم کی معاشی حالت سنبھالنے کا بڑا چیلنج درپیش تھا، روس کی دوستی اور دشمنی دونوں کا نتیجہ ،سرحدوں کی آزادی اور نظریات سے دستبرداری کی صورت میں نکلتا۔ ہمیں روس سے بھی بڑا اور فوری خطرہ ہندوستان سے تھاجس نے آزادی کے دن سے ہی کھلم کھلا پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت بنانے کے ارادوں کا اظہار اور ان ارادوں کو عمل میں لانے کے لیے کسی تاخیر سے کام نہیں لیا تھا، وہ آزادی کے ساتھ ہی ہندوستان کی مسلم ریاستوں پر حملہ آور ہوکر بھوپال ، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کو ہڑپ کرگیااور پاکستان پر براستہ کشمیر حملہ آور ہوچکا تھا، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا سہارا لینے کی اہم اور فوری وجہ انڈیا کی پاکستان پر جارحیت بھی تھی، انڈیا پاکستان کے متعلق کئی گنا بڑی ریاست تھی، افرادی قوت اور وسائل کے اعتبار سے ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو جرأت وبہادری جوش وجذبے کے علاوہ زیادہ اچھی فوجی تربیت ، بہتر اسلحہ اور تکنیکی مہارت کی ضرورت تھی، روس کے مقابلے میں امریکہ کی دفاعی صنعت زیادہ ترقی یافتہ اور اس کی اقتصادی اور معاشی صورت حال بھی روس کے مقابلے میں بہت بہتر تھی، امریکی اسلحہ دشمن کا سامنا کرنے کے لیے روسی اسلحے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مؤثر تھا اور دفاع کی ضرورت پوری کرسکتا تھا، پاکستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی، تجارت تھی نہ صنعت اور جو کچھ زرعی پیداوار ہوتی اس کو تجارت کے قابل بنانے کے لیے مشینیں درکار تھیں اور دفاع کے لیے اسلحہ ۔ ان ضرورتوں کو پورے کرنے کے لیے امریکہ ہماری ترجیح بن گیا۔ آج ہم عالمی جنگوں کے بعد اور 1991ء سے پہلے والے روس کی بات کررہے ہیں جو آدھی دنیا پر قابض تھا یا وہ اس کے حلقہ اثر میں شامل تھا، بچ جانے والی آدھی دنیا پر وہ اپنے دانت تیز کررہا تھا، اس کے حلقہ اثر سے بچ رہنے والی آدھی دنیا میں ایک چھوٹا سا نوزائیدہ ملک پاکستان بھی شامل تھا، جو اس کا اولین ہدف اور اس کے رستے میں پہلی رکاوٹ بھی تھا، روس کی دشمنی لفظ پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ یہ خطہ صدیوں پہلے سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے نقشے کا حصہ رہا ۔ تقسیم ہند سے پہلے برطانوی حکومت بھی روس کے عزائم سے آگاہ اور فکر مند تھی۔ وہ ہندوستان کو چھوڑتے وقت بھی روس کی پیش قدمی سے خوفزدہ تھے، کیمونسٹ روس 1917ء میں انقلاب کے بعد اپنے مغرب اور مشرق میں بیک وقت جارحانہ پیش قدمی کررہا تھا، ایک طرف پورا مشرقی یورپ اس کے قبضے میں آچکا تھا، پولینڈ ، ہنگری ، یوگوسلاویہ ، رومانیہ ، بلغاریہ ، البانیہ اور آدھا جرمنی۔ مشرق میں آذربائی جان ، ترکستان ، تاجکستان ، ازبکستان ، شیشان اور تاتارستان عالمی نقشے سے مٹ کر روس میں ضم کرلیے گئے تھے، اب مغربی یورپ اس کے سامنے تھا ، دوسری طرف ایک چھوٹا غریب ، بے سہارا اور پسماندہ افغانستان۔ انگریز جاتے جاتے افغانستان کی مدد اور ہندوستان کے تحفظ کے لیے پاکستان کی شکل میں ایک مسلم ریاست چھوڑے جارہا تھا، ایک طرف روس کے زیرِ قبضہ بچ رہنے والی مسلم ریاستیں یعنی پاکستان ، افغانستان ،ترکی اور ایران اس کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف مغرب کو اس خطرے سے فوری طور پر بچانے کے لیے نسبتاً آسان اہداف دے دئیے جائیں تاکہ وہ ادھر متوجہ رہے، انگریزوں کے لیے پاکستان کا قیام محض ہندوستان کی سیاسی ضرورتوں کی تکمیل کی وجہ نہ تھا، بلکہ یہ مغرب کے دفاع کے لیے دشمن کو دوسری طرف راغب کرنے کی چال بھی تھا، یورپ نے ایک طرف مشرقی سمت میں روس کو نسبتاً آسان اہداف کا لالچ دیا اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت نے ایک متبادل عالمی حلقہ اثر قائم کرلیا۔ پاکستان بن گیا مگر اسے اندرونی مسائل کے ساتھ سرحدوں پر دو طرفہ خطرات کا سامنا تھا، دونوں دشمن اس کے مقابلے میں بہت بڑے اور طاقتور تھے، پاکستان مجبور تھا کہ دو عالمی طاقتوں اور اتحادوں کے درمیان کسی ایک کے ساتھ منسلک ہوکر اپنی سلامتی اور فوری درپیش مسائل کے حل کی راہ نکالے ۔ چنانچہ اس نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کرلیا، بعد میں یہ فیصلہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے لیے سود مند ثابت ہوا۔ روس ہماری ترجیح اس لیے نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ نظریاتی اور جغرافیائی اعتبار سے ہمارے لیے خطرناک تھا کیونکہ وہ اپنے لیے اتحادی منتخب نہیں کرتا تھا، بلکہ ایک دفعہ اس کے جال میں آنے والی قوم اور ملک اپنی جغرافیائی اور نظریاتی پہچان برقرار نہیں رکھ سکتا تھا، انہیں اندرونی اور بیرونی آزادی حاصل نہیں رہتی تھی، ان کے تمام فیصلے ’’ ماسکو‘‘ میں کیمونسٹ پارٹی کی پریذیڈیم طے کرتی اور ان کی علاقائی حکومتیں دراصل ’’ماسکو‘‘ کے تنخواہ دار کارندے تھے، روس بے خدا دین اور پوری دنیا کے ہرزندہ انسان کو کیمونسٹ پارٹی کے لیے سستا مزدور بھرتی کرنا چاہتی تھی جو مشین کے پرزوں کی طرح خاموشی سے کام میں جتے رہیں، کیمونزم زمینوں اور مکانوں پر ہی نہیں ، دل اور دماغ پر بیک وقت حملہ آور ہوتا تھا، روس ایسا عفریت بن کر سامنے آیا کہ جو بھی اس کے پاس گیا روس نے اس کی پہچان ، آزادیٰ حتی کہ نام تک بدل ڈالے۔