وفاقی کابینہ نے پاک بھارت کشیدہ صورت حال میں قومی اتفاق رائے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کہا گیا کہ قومی اہمیت کے حامل فیصلے تمام پارلیمان سربراہوں کی مشاورت سے ہوں گے۔ وزیراعظم نے وزراء کو انتباہ کیا کہ وہ کسی صورت اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ وفاقی کابینہ نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا جائزہ لیا جس کے متعلق وزیر اطلاعات نے بعدازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ریاست کالعدم تنظیموں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ساتھ آرمی چیف کی سربراہی میں کور کمانڈر کانفرنس بھی سات مارچ کے روز ہوئی۔ کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا کہ طاقت استعمال کرنے کا حق صرف ریاست کے پاس ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تیز کئے جانے پر اتفاق کیا گیا۔ کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا کہ پاکستان امن و ترقی کے رستے پر گامزن ہے، کوئی بھی طاقت یا دھمکی پاکستان کو جھکا نہیں سکتی۔ کسی قوم کی طمانیت کے لیے یہ کافی ہو گا کہ بحران کے زمانے میں اس کے سیاسی و عسکری ادرے اپنے فرائض کو بخوبی ادا کرنے کے قابل اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں کرپشن اور بدانتظامی جیسی برائیاں ہو سکتی ہیں مگر یہ بات کسی شبہ کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ جب کبھی قومی سلامتی کا معاملہ درپیش ہوا سیاسی رہنمائوں نے باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر متفقہ موقف اختیار کیا۔ بات اگر پاک بھارت تعلقات کی ہو تو ایسے کئی سیاستدان اور جماعتیں ہیں جن کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات بحال کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ ایسی شخصیات بھی اپنی رائے پیش کرتی رہتی ہیں جن کا خیال ہے کہ ہمیں کالعدم تنظیموں کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کی اس رائے سے بعض اوقات اشتباہ ہوتا ہے کہ وہ بھارت یا امریکہ کی خواہشات بیان کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لفظی جنگ ایل او سی اور بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی اور حملوں تک پہنچی تو شاید عالمی برادری یہ توقع کر رہی تھی کہ ایک نئے سیاسی عمل سے گزر رہی پاکستانی قوم اور اس کے نمائندے اس محاذ پر بھی منتشر اور باہم دست و گریباں نظر آئیں گے۔ ایسا نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ سب پارلیمانی رہنمائوں نے حکومتی حکمت عملی کی حمایت کی۔ سیاسی جماعتوں کے دانشمندانہ تعاون کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن ہمیں تقسیم کرنے میں ناکام ہوگیا۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے اہم قومی امور پر تمام پارلیمانی رہنمائوں سے مشاورت کے فیصلے کے پیچھے قومی اتفاق رائے کے مثبت نتائج کارفرما ہیں۔ اگر ہماری جمہوری روایات میںپارلیمانی رہنما قومی مفاد کو تمام وابستگیوں سے بالا رکھیں تو ان کی باہمی مشاورت جمہوریت کے استحکام، شفافیت اور قومی ترقی کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ افواج پاکستان کو عموماً کوئی نہ کوئی خارجی چیلنج درپیش رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں اس کی انٹیلی جنس اور چھاپہ مار صلاحیت دنیا بھر سے داد وصول کر چکی ہے۔ پاکستانی فوجیوں نے اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شریک ہو کر مسلح تنازعات والے خطرناک علاقوں میں شاندار خدمات انجام دیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے جدید اسلحہ اور تربیت سے لیس افواج وہ کامیابیاں حاصل نہ کرسکیں جو بار بار پابندیوں کے باوجود پاکستانی فوج نے حاصل کیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت جانتی ہے کہ جدید دنیا میں نان سٹیٹ ایکٹرز مسلح ہوں یا غیر مسلح ان کی طاقت اور اثرورسوخ ریاست سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ جس ملک میں ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر طاقت ور ہو جاتے ہیں وہ ریاست ناکام کہلاتی ہے۔ پاکستان اکیس کروڑ آبادی والی ریاست ہے۔ خدا نہ کرے یہ ناکام ہوا تو اکیس کروڑ انسانی زندگیوں کی بقا مشکل ہو سکتی ہے۔ ماضی میں نان سٹیٹ ایکٹرز سرد جنگ میں امریکی بلاک کی عسکری ضرورت تھے۔ یہ ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ پاکستان میں ایسے عناصر نے قوم پرستی اور فرقہ پرستی کی آڑ میں مسلح کارروائیاں کیں۔ سماج کے فکری نظام کو انتہا پسندی اور تشدد سے آلودہ کیا مگر صد شکر کہ دین سے مخلص افراد اور شرپسندوں کے درمیان ایک واضح امتیاز پیدا ہو چکا ہے۔ جو عناصر ریاست کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیںان کے لیے ریاست نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے رکھا ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کو حاصل ہونے کے اعلان سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کسی ایسے گروہ کا حامی نہیں جو امن کا دشمن ہو۔ فوجی قیادت جانتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر ابھی پوری طرح عمل نہیں ہو سکا تاہم اس کے اچھے نتائج نے پاکستان میں امن بپا کردیا ہے۔ دراصل نان سٹیٹ ایکٹرز کے متعلق بیان جاری کر کے عسکری قیادت نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ بھارت کے اس پروپیگنڈہ میں نہ آئے کہ پاکستان غیر ریاستی تشدد پسند گروہوں کا مرکز ہے۔ پاکستان نے ممبئی حملوں اور پلوامہ حملے کے بعد بھارت کو تعاون کی پیشکش کی تھی جسے بھارتی قیادت اپنی نفرت کی آگ میں جلا کر موقع ضائع کر بیٹھی ہے۔ بین الاقوامی برادری پاکستان کے اقدامات اور اعلانات کا اعتبار کر رہی ہے اور سمجھ رہی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست بن کر ابھرا ہے۔