کیا کوئی آج اس سانحے کے انتہائی معمولی آغاز پر یقین کرے گا کہ 8 دسمبر 1958ء کو جب پاکستان نے پہلی دفعہ آئی ایم ایف کے دروازے پر بھیک مانگی تھی تو اس کے کشکول میں صرف پچیس ہزار ڈالر ڈالے گئے تھے۔ یہ پچیس ہزار ڈالر "Stand by" یعنی ’’حاضر باش‘‘ مقصد کیلئے دیئے گئے۔ یہ ڈالر نمائشی طور پر خزانے میں ڈالے جاتے ہیں، جنہیں آپ دیکھ تو سکتے ہیں لیکن خرچ نہیں کر سکتے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ عالمی منڈی سے کوئی خریدوفروخت کرتے ہیں یا کسی بیرون ملک کے بینک سے قرضہ لیتے ہیں تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستان کے خزانے میں اتنے ڈالر موجود ہیں، اور یوں ہماری رقم ڈوبے گی نہیں۔ پاکستان کو 1958ء کا یہ دن گذشتہ گیارہ سالہ ’’سیاسی شعبدہ بازیوں‘‘ کے بعد دیکھنا پڑا۔ یوں تو ان گیارہ سالوں میں پاکستان میں بے شمار ترقی بھی ہوئی اور ایک لُٹے پٹے ملک سے اس نے معاشی و معاشرتی استحکام تک کے سفر کا آغاز بھی کر لیا تھا، مگر اوّل روز سے ہی اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے والی ’’لعنت‘‘ نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظمؒ نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں جس ناسور کا تذکرہ کیا تھا وہ ’’کرپشن‘‘ تھی۔ آئی ایم ایف کے صرف پچیس ہزار ڈالر اس گیارہ سالہ کرپشن کے جھٹکے کو برداشت کرنے کیلئے کافی تھے۔ اس کے بعد ایوب خان کے سات سال سکون، اطمینان اور معاشی ترقی کے سال تھے۔ لیکن ایوب خان کے دماغ کا ’’جمہوری کیڑا‘‘ اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ ایک طویل مہم کے بعد 1964ء کے الیکشن ہوئے۔ جائزوناجائز طریقے سے جیتنے کے خبط نے ملک کو ایک انتشار کا شکار کر دیا اور ساتھ ہی 1965ء کی جنگ نے یہاں ایسا معاشی عدمِ استحکام پیدا کر دیا کہ، ایک بار پھر 16 مارچ 1965ء کو پاکستان آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑا تھا اور اس دفعہ کشکول میں سینتیس ہزار پانچ سو (37,500) ڈالر ڈالے گئے۔ اس کے اگلے تین سال بحالی جمہوریت کی تحریک کے سال تھے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی علیحدگی پسند سیاست کی گونج تھی اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست بنگالیوں سے نجات حاصل کر کے بچے کھچے پاکستان پر اقتدار حاصل کرنے کے گرد گھومتی تھی۔ لوگ دبی زبان میں تذکرہ کرتے تھے، لیکن کوئی یقین نہیں کرتا تھا، مگر جب 1970ء کی انتخابی مہم آئی تو اس نے سب کچھ طشت از بام کر کے رکھ دیا۔ بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی بھی اُمیدوار کھڑا نہ کر کے اسے عملاً خدا حافظ کہہ دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے یہاں پانچ سے بھی کم لوگوں کو الیکشن لڑوا کر اپنے راستے ہم سے جدا کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی ’’جمہوری گہما گہمی‘‘ میں یحییٰ خان کی حکومت 17 اکتوبر 1968ء کو پھر آئی ایم ایف جا پہنچی اور اس دفعہ رقم صرف 75 ہزار ڈالر تھے۔ ایوب خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے ذوالفقار علی بھٹو کو جب امریکہ سے بلا کر صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے آمرانہ عہدے پر ’’سرفراز‘‘ کیا گیا تو موصوف کے دل میں آئی ایم ایف کا دروازہ اس قدر سمایا ہوا تھا کہ وہ اپنے پانچ سالہ دَورِ اقتدار میں تین دفعہ آئی ایم ایف گیا، 1972ئ، 1974ء اور حکومت کے آخری چھ ماہ کے دوران یعنی 1977ئ۔ یوں پاکستان جو دو مارشل لائوں کے دوران ابھی صرف 75 ہزار ڈالر تک ہی پہنچا تھا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے وقت تک 33 کروڑ ڈالر کے آئی ایم ایف قرضے وصول کر چکا تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت آئی تو وہ اپنے دس سالوں میں دو دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گئی اور پاکستان کیلئے تقریباً ایک ارب ڈالر بھیک لے کر آئی۔ مگر اس کے بعد، ایک گیارہ سالہ جمہوری دَور ایسا آیا جس میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں نے مل کر آٹھ دفعہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی۔ پانچ دفعہ بے نظیر نے اور تین دفعہ نواز شریف نے۔ ان دستکوں کے جواب میں آئی ایم ایف کا قرضہ ایک ارب چونسٹھ کروڑ ڈالر تک جا پہنچا۔ ایک بار پھر ڈکیٹر شپ آئی، مگر مشرف اپنے نو سالوں میں صرف دو دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گیا اور انتہائی کم شرح سُود پر ایک ارب 33 کروڑ ڈالر لے کر آیا۔ امریکہ اور مغرب کا یہ لاڈلا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے مراعات لیتا رہا۔ جیسے ہی 2008ء میں بے نظیر کے مزار کی خیرات میں آصف علی زرداری کی حکومت برسرِاقتدار آئی تو انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے ابتدائی مہینوں میں ہی کشکول تھاما اور دروازہ جا کھٹکھٹایا اور پھر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ یعنی 4 ارب 94 کروڑ ڈالر حاصل کر لیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا آئی ایم ایف قرضہ تھا جس کے ساتھ شرائط منسلک تھیں، یعنی ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں، عوام اور صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے۔ اسے آئی ایم ایف کی زبان میں "Structural Adjustment" کہتے ہیں۔ یعنی مقروض ملکوں کے معاشی ڈھانچے میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ وہ عوام کی جیبوں سے ٹیکس وصول کریں اور ان عالمی بینکوں کا قرضہ واپس کریں جنہوں نے انہیں اس دلدل میں دھکیلا تھا۔ اب تو ایسے تھا کہ یہ سلسلہ چل نکلا ہے۔ نواز شریف حکومت آئی تو اس نے زرداری سے بھی سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے تین سالہ پروگرام حاصل کیا اور کشکول میں چار ارب چالیس کروڑ وصول کئے، جو پاکستان کا دوسرا بڑا آئی ایم ایف قرضہ تھا۔ پاکستان نے اب تک آئی ایم ایف سے 13 ارب 74 کروڑ ڈالر قرضہ حاصل کیا ہے جس میں سے 47 فیصد قرض پیپلز پارٹی، 33 فیصد قرض مسلم لیگ نواز اور تین فوجی ڈکٹیٹروں نے کل ملا کر صرف 18 فیصد قرضہ لیا۔ یہ تو آئی ایم ایف کی کہانی ہے جو دراصل کسی ملک کو اس لئے قرضہ دیتا ہے تاکہ وہ اس بل بوتے پر بیرون ملک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے اپنے اللّے تللّوں اور عیاشیوں کیلئے دھڑا دھڑ قرض حاصل کر سکے۔ پاکستان کے پہلے گیارہ سالوں میں اس ملک پر ایک روپے کا بھی بیرونی قرضہ نہیں تھا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمریت کے گیارہ سالوں میں بیرونی قرضہ 5 بلین ڈالروں سے بھی کم تھا جو 1999ء تک آتے آتے 140 بلین ڈالروں تک جا پہنچا۔ مشرف دَور میں اس میں کمی آنے لگی اور یہ 35 ارب سے 38 ارب ڈالر کے درمیان جھولنے لگا۔ مشرف رُخصت ہوا۔ زرداری اور نواز شریف کا ’’سنہری‘‘ دَور واپس آیا تو اپنے اختتام یعنی 2018ء میں پاکستان کا بیرونی قرضہ 91 ارب ڈالر کے قریب جا چکا تھا۔ یہ تو بیرونی قرضہ تھا۔ اس ملک کے ساتھ ان دس سالوں میں ایک اور معاشی کھلواڑ کیا گیا۔ پہلے اپنے منظورِ نظر افراد کو بینک بیچے گئے، پھر ان بینکوں سے حکومتوں نے دھڑا دھڑ قرضے حاصل کئے، جو مہنگے سُود پر لئے گئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے اگر دو یا تین فیصد پر آسان شرائط کیساتھ قرض حاصل کرتے تھے تو انہیں عیاشیوں پر خرچ کر دیتے تھے مگر اس قرض کو لوٹانے کیلئے آپ پندرہ فیصد شرح سُود تک ادا کر کے ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے قرض لیتے اور یوں یہ حکمران ملک کو قرضوں کے مہیب اور خطرناک دلدل میں دھکیل دیتے۔ ان حالات کیساتھ جب 2018ء میں مسلم لیگ نواز کی حکومت رُخصت ہوئی تو یہ جاتے ہوئے اس غریب ملک کو 29 ہزار ارب روپے کے قرضوں میں جکڑا ہوا چھوڑ چکی تھی۔ یہ قرضہ پاکستان کی کل پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 86.8 فیصد تھا۔ یعنی اس ملک کے بائیس کروڑ عوام جتنا محنت کر کے غلہ اُگاتے، کپڑے اور دیگر مصنوعات بناتے ہیں اس کا 86.8 فیصد اس ملک پر قرض ہے اور ان بائیس کروڑ عوام کے کھاتے میں صرف 13.2 فیصد رہ جاتا ہے۔ (جاری)