پاکستان کی معاشی بحالی کے حوالے سے کچھ مشکل فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں اور کچھ مشکل فیصلے نہیں ہو سکے ‘ وزیر اعظم سمیت ہر حکومتی رکن کی کوشش ہے کہ ملکی معیشت بحال ہو‘ کیونکہ بظاہر سمت درست نظر آ رہی ہے ۔آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ساتھ بھی ڈیل ہو رہی ہے ۔کوویڈ کی وجہ سے آئی ایم ایف کا پروگرام رکا ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے پاکستان نکلنے کے قریب پہنچ چکاہے‘ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ اس وقت پاکستان کی معیشت تباہی سے دوچار تھی۔ بعض ماہرین کے نزدیک پاکستان اس وقت معاشی کھنڈر تھا۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو معاشی محاذ پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو معاشی مسائل میں جکڑا پاکستان ملا تھا ۔ماہرین کے مطابق ن لیگ کی حکومت کی میگا کرپشن اور منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر مشکوک ہوا اور فروری 2018ء میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ جو پاکستان کی معیشت کے لئے وبال جان بن گیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ کی حکومت نے اپنے دور اختتام پر ملک کو آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچا دیا تھا۔جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے‘پاکستان کی معیشت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ بغیر قرضہ لیے اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے۔ معیشت کی زبوں حالی سب پر عیاں تھی۔ جولائی2018ء میں ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 15ارب 70کروڑ رہ گئے تھے جن میں سرکاری ذخائر صرف 9ارب ڈالر تھے۔ جو 3ماہ کے امپورٹ بل کے برابر تھے۔ تحریک انصاف کو معاشی وبال ورثہ میں ملا تھا۔ موجودہ معاشی صورتحال کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ مختلف معاشی ماہرین اپنے تبصروں اور تجزیوں میں ن لیگ کے دور حکومت میں معاشی بدحالی کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ ن لیگ حکومت نے 2013ء سے 2017ء تک مہنگے ترین کمرشل قرضوں سمیت بڑے پیمانے پر اندرونی و بیرونی قرضے لیے ‘پاکستانی روپے کی قدر کو مصنوعی سہارا دیے رکھا۔ ڈالر کے حقیقی ریٹ اور زرمبادلہ کی شرح کو بالائے طاق رکھا‘ روپے کی قدر کو مصنوعی آکسیجن لگنے سے امپورٹ بڑھتی گئی اور پاکستانی اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ کم ہوتی گئی۔ اس دور میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 118ڈالر سے کم ہو کر 34ڈالر فی بیرل پر آ گئی تھی۔ یہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے نادر موقع تھا مگر اس کا بڑا حصہ ڈالر کی قیمت کم رکھنے پر خرچ کر دیا گیا اور پاکستانیوں اور پاکستان کو تیل سستا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک وقت آیا کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20ارب ڈالر تک پہنچ گیا اس وقت نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ماہرین بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ وہ خسارہ تھا جو ملکی جی ڈی پی کا 6.3فیصد تھا۔ سال 2020ء نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے چیلنجنگ ثابت ہوا۔یہ سال دنیا بھر کی معیشت کے لئے تباہی کی خبریں لایا تھا ‘اس کی وجہ کورونا تھا، کورونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان چند خوش قسمت ملکوں میں شامل رہا‘جسے کورونا کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا نہ بیماری کی وجہ سے لوگوں کواور نہ ہی معیشت کو‘ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کورونا کی وجہ سے گروتھ ریٹ منفی ہو گئی۔ کئی بڑے ممالک بھی بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں، اب یہ خبریں ہیں کہ سال 2021ء پاکستان کی معیشت کے لئے بہت بہتر سال ہو گا ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستانی معیشت ترقی کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں 25فیصد منافع کی توقع ہے ۔اگلے سال کے آخر تک انڈیکس 50ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کر سکتا ہے۔ ایکسپورٹ میں مسلسل اضافہ ترسیلات زر میں بہتری سے روپے کی قدر میں گراوٹ کا خدشہ نہیں۔ روپیہ مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔نومبر کے مہینے میں 10سال بعد 2ارب 15کروڑ ڈالرز کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئیں۔سستی بجلی‘ گیس سے ایکسپورٹ آرڈر میں تیزی ٹیکسٹائل سیکٹر کو چار چاند لگا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ کی جی ڈی بی میں کمی منفی 4فیصد ہے۔ برطانیہ 10فیصد منفی ہوئی۔ بھارت میں 9فیصد منفی ہوئی۔ جبکہ پاکستان کی 0.4فیصد منفی رہی۔ لگ رہا ہے کہ 2021ء کا سال پاکستان کے لئے بہتر ہو گا۔ پاکستان بڑے عرصے بعد ایک درست سمت کی طرف جا ہا ہے۔ پاکستان کی ریمی ٹینسز میں 27فیصد گروتھ 4ماہ میں ہوئی ہے ‘ایکسپورٹ ہر ماہ بڑھ رہی ہے‘ امپورٹ کم ہو رہی ہے۔ تمام بڑے سیکٹرز میں ارننگ گروتھ دیکھی جا رہی ہے۔ آٹو موبائل سیکٹر ‘سیمنٹ سیکٹر‘ ٹیکسٹائل سیکٹر‘ بینکنگ سیکٹر گروتھ کر رہا ہے‘ ہائوسنگ فنانس‘ کنسٹرکشن پیکیج اور سستے قرضوں سے سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جدوجہد جاری ہے کہ کسی طرح سے پاکستان میں تعمیراتی انقلاب آ جائے تاکہ معیشت کا پہیہ پوری قوت کے ساتھ گھومنے لگے اور یہ انقلاب آگے چل کر گیم چینجر ثابت ہو۔ لیکن اس کام میں کچھ رکاوٹیں بھی آ رہی ہیں‘ اس تحریک میں پی پی حکومت وزیر اعظم کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ سندھ حکومت نے تعمیراتی منصوبوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں ۔ماہرین کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے 300منصوبوں کی منظوری روکی ہوئی ہے۔ گزشتہ 4ماہ میں صرف 19منصوبوں کی منظوری ہوئی ہے ۔اس کے مقابلے میں لاہور ‘پشاور میں تعمیراتی منصوبے بن رہے ہیں ‘منظور ہو رہے ہیں ۔ بلا شبہ وزیر اعظم تعمیراتی پیکیج کی کامیابی کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں ۔کابینہ اجلاس میں بھی اس پر کھل کر بات ہوئی، گاہے بگاہے خصوصی اجلاس بلا کر بھی تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ہر بدھ کو بینکوں کے سربراہوں سے میٹنگ کرتے ہیں۔ تعمیراتی شعبوں سے منسلک صنعتوں کے لئے سہولیات کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان نے کچھ انقلابی اقدامات کئے ہیں جو 70سال میں نہیں ہوئے ایف بی آر میں اصلاحات کیں۔ بینکوں میں فنانسنگ سسٹم آسان کیا ۔اب غریبوں کو بھی 5فیصد پر گھر بنانے کے لئے قرضے مل رہے ہیں۔ کنسٹرکشن سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دیاگیا ہے۔ اب اگر کوئی مشینری باہر سے لائی جائے گی تو اس پر 6فیصد کی بجائے 2فیصد انکم ٹیکس لگے گا وہ بھی ایڈجسٹیبل ہو گا۔ عمران خان ملک میں ہائی رائز عمارتیں بنانا چاہتے ہیں جس طرح پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اس میں شہروں کا پھیلائو نہ روکا گیا تو زراعت ختم ہو جائے گی ۔اسی لئے ہائی رائز بلڈنگ بنائی جائے گی تاکہ کم جگہ پر زیادہ لوگ بسائے جا سکیں اور شہر بھی خوبصورت لگے۔ حکومت کی طرف سے تعمیراتی انڈسٹری کے لئے ٹیکس کی چھوٹ 31دسمبر تک ہے ۔اس میں اب 20دن باقی رہ گئے ہیں حکومت اس میں توسیع کر دے چونکہ جس طرح سے تعمیراتی سیکٹر میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ خوش آئند ہے اس میں توسیع ہونی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مزید فائدہ حاصل کر سکیں۔ایک سالہ توسیع کے فوائد سے ریاست اور قوم دونوں یکساں فیض یاب ہوں گے۔