اگست آزادی کا مہینہ ہے ، اگست کے آغاز سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئیں ، یکم اگست کو عید منائی گئی ، اس ماہ کورونا تیزی سے نیچے آ رہا ہے ، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ایم ایل ون منصوبے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے پر 6 ارب 80کروڑ ڈالر لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ ریلوے کے پونے دو سو سالہ نظام کو بدل کر رکھ دے گا ۔ خوشی کے اس موقع پر میں جو گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں وہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی طرف سے ہیں ، ریلوے کے جدید نظام کا فائدہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں کو ملنا چاہئے ، میں آزادی ٹرین کی بھی بات کروں گا لیکن پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کو دیگر پسماندہ علاقوں کے ساتھ جنوبی پنجاب کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان کا تعلق بھی پسماندہ علاقے میانوالی سے ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وزارت ریلوے میں بھی وسیب کو بری طرح نظر انداز کیا ہوا ہے۔ حالانکہ وسیب پاکستان کے عین درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے اور اس خطے کو جو بھی سہولت ملے اس سے دوسرے خطوں کے لوگ بھی باآسانی استفادہ کر سکتے ہیں ۔ ایک تجویز یہ بھی آئی تھی کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر کو تبدیل کر کے ملتان لایا جائے اور کوئٹہ ‘ سکھر ‘ پشاور‘ پنڈی اور لاہور ڈویژنوں کو زیادہ اختیارات دیکر ہیڈ کوارٹر کی مرکزیت کو کم کیا جائے ۔ اس سے جہاں انتظامی معاملات بہتر ہونگے ‘ وہاں مالی بد انتظامی کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس وقت لاہور کی مغل پورہ ورکشاپ میں تقریباً ہزاروں ملازم کام کر رہے ہیں جن میں 95 فیصد کا تعلق لاہور اور آس پاس کے علاقوں سے ہے اور مغل پورہ ورکشاپ کے ملازم شہنشاہ بنے ہوئے ہیں ۔ ریلوے کو قومی خزانے سے سبسڈی دی جاتی ہے لہٰذا اس کا فائدہ ملک کے تمام علاقوں کو ملنا چاہئے ۔سرائیکی علاقے ماڑی انڈس ، ٹانک ، کالا باغ ، بنوں اور لکی مروت ٹرین بھی آج تک بند ہے ۔ دفاعی نکتہ نظر سے فیروزہ اور خیرپور ٹامیوالی اسٹیشنوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے ‘ منظوری کے باوجود ان کو بھی اپ گریڈ نہیں کیا گیا اور سمہ سٹہ بہاولنگر سیکشن کو بھی بیدردی کے ساتھ ختم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وسیب کا قصور کیا ہے اور اسے پاکستان کا حصہ کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟ ملتان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ماہ میں ملتان سے ہزار وںآم کی پیٹیاں بک ہوئیں جس سے ریلوے کو لاکھوں روپے کی آمدنی ہوئی ۔ میرا تعلق خانپور سے ہے ۔ اگر میں اپنے شہر کی بات کروں خانپور ریلوے کا جنکشن بنایا گیا اور خانپور میں عالیشان ریلوے کالونی آفیسر کلب اور افسران کیلئے رہائش گاہیں تعمیر ہوئیں ۔ کہا گیا کہ خانپور کو ریلوے کا ہب بنائیں گے ۔اس مقصد کیلئے خانپور میں وسیع اراضی حاصل کی گئی۔ خانپور سے چاچڑاں تک ریلوے لائن موجود تھی۔ دوسری طرف کوٹ مٹھن تک ریلوے لائن موجود ہے ۔ منصوبہ تھا کہ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر ریلوے پل تعمیر کر کے چاچڑاں کوٹ مٹھن ریلوے لائن کو ایک دوسرے سے ملا دیا جائے ۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک طرف براستہ جیکب آباد ، کوئٹہ تک ، دوسری طرف براستہ ڈی جی خان کندیاں پنڈی و پشاور تک وسیب کے لوگ ایک دوسرے سے لنک اپ ہو جاتے ‘ مگر پُل کیا بننا تھا نواز شریف کے پچھلے دور میں خانپور ‘ چاچڑاں ریلوے لائن کی پٹریاں اکھڑوا کر لاہور میں موجود سٹیل ملوں کی بھٹیوں میں ڈال دی گئیں اور کھربوں کی ریلوے زمین پر لینڈ مافیا کو قابض کرا دیا گیا۔ مشرف دور میں شیخ رشید ریلوے کے وزیر بنے ۔ خانپور آئے ، ان کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ جنکشن بحال ہوگا ۔ چاچڑاں ریلوے دوبارہ بنائی جائے گی ‘ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بھی بنے گا اور انگریز دور کے منصوبے کے تحت خانپور کو ریلوے کا ہب بنایا جائے گا ۔ کچھ عرصہ بعد شیخ رشید سے ریلوے کی وزارت لے لی گئی ۔ پھر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی ۔ اب عمران خان کی کابینہ میں ریلوے کی وزارت شیخ رشید حصے میں آئی ہے ۔ ہم کہتے ہیں جو بھی ریلوے کا وزیر ہو، اس کی سوچ قومی ہونی چاہئے اور فیصلے بھی قومی مفاد میں ہونے چاہئیں اور ریلوے جو قومی خزانے سے بھاری سبسڈی لے رہی ہے اس کا فائدہ بھی سب کو برابر ملنا چاہئے ۔ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یوم آزادی کی تقریبات کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ ہرسال پاکستان ریلوے آزادی ٹرین کے نام سے پشاور سے کراچی تک گاڑی چلاتی ہے جس میں سندھی ‘ بلوچی ‘ پنجابی ‘ گلگتی ‘ کشمیری اور پشتو ثقافت کو نمائندگی دی جاتی ہے مگر پاکستان کی قدیم سرائیکی ثقافت کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اس پر وسیب کے لوگ ہر سال احتجاج کرتے ہیں اور آزادی ٹرین جونہی ملتان ‘ لودھراں ‘ بہاولپور ‘ سمہ سٹہ ‘ خانپور‘ رحیم یارخان سے گزرتی ہے تو وسیب کے لوگ موقع پر جا کر احتجاج کرتے ہیں اور ریلوے حکام مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ آزادی ٹرین میں ہماری ثقافت کو بھی شامل کیا جائے ۔ دیکھا جائے تو یہ مطالبہ وسیب کے لوگوں کی حب الوطنی کا غماز ہے کہ وہ یوم آزادی کی خوشیوں میں خود کو شریک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وطن دشمن متعصب بیورو کریسی ہر سال ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی آ رہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وسیب کے لوگ الگ ملک نہیں بلکہ پاکستان میں اپنی شناخت اور اپنا صوبہ مانگتے ہیں ۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے بجا طور پر کہا کہ ریلوے کے اس منصوبے سے ٹرینوں کی رفتار بڑھ جائے گی اور کم وقت میں مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکیں گے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے سے دو لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا ، 90 فیصد ملازمتیں پاکستانیوں کے لئے مختص ہونگی ۔ اس موقع پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملازمتوں کے سلسلے میں پسماندہ وسیب کو شامل رکھنا چاہئے کہ اس سے پہلے وسیب مکمل طور پر نظر انداز ہے ، تمام اعلیٰ عہدے دیگر علاقوں کے پاس ہیں ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وسیب کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے نتیجے میں وسیب کے حقوق کیلئے کام کرنے والی جماعتوں کی طرف سے اب یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ تما م محکمہ جات میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر کوٹہ مختص کیا جائے تاکہ تمام لوگ پاکستان کی فیوض و برکات سے استفادہ کر سکیں ۔