افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انہیں دورے کی دعوت ملی تو وہ پاکستان جائیں گے۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ خطے اور ہمسایہ ملکوں کے دورے کرتے رہے ہیں۔ بیرون قوتوں سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد افغان حکومت سمیت تمام فریقین سے ملیں گے۔ انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے لئے بھی رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے پاکستان سے بات چیت پر رضا مندی ان حالیہ سفارتی اور سیاسی کامیابیوں کا تسلسل ہے‘ جو وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے شروع ہوئیں۔ پاکستان اور امریکہ کئی برسوں سے ایک دوسرے سے بدظن چلے آ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کو مسلم اور پاکستان دشمنی پر استوار کیا۔ انہوں نے مہاجرین کو واپس بھیجنے‘ سفید فاموں کی برتری اور نیٹو سے مالیاتی معاملات کو اٹھایا جبکہ مسلمانوں‘ پاکستانیوں اور خواتین کو خصوصی تنقید کا ہدف بنائے رکھا۔ چند ہفتے قبل بھی انہوں نے دو ڈیمو کریٹ مسلم خواتین کے خلاف بیانات داغے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ٹویٹ کیا کہ پاکستان نے روپے لے کر کبھی پورا کام نہیں کیا۔ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر ذمہ دارانہ کردار کا الزام بھی عائد کیا۔ان کے اس ٹویٹ کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے انہیں تاریخ کو ازسر نو پڑھنے اور حقائق کا ادراک کرنے کا مشورہ دیا۔ کسی امریکی سربراہ کے بیان کے جواب میں یہ پاکستان کی جانب سے سخت ترین ردعمل تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار اس امر کوجتلا چکے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے امداد کا طلب گار رہتاہے۔ حالیہ دورے میں پاکستان نے اپنی معاشی مجبوریوں کا رونا رو کر امریکہ سے امداد طلب نہیں کی ۔یہ دورہ خالصتاً امریکی ضرورت تھا لہٰذا اس بار اسے پاکستان کی ضروریات کا خود خیال رکھنا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کو بغور سنا اور ثالثی کے ضمن میں خود کو پیش کیا۔ انہوں نے پاکستانی قوم اور وزیر اعظم کو عظیم قرار دیا۔ صدر ٹرمپ ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں کہ انہیں افغانستان سے باعزت انخلا کے لئے پاکستان کی مدد درکار ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان اب تک مذاکرات کے جو چھ مرحلے طے ہوئے ہیں وہ پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں اپنی مذاکراتی ٹیم کو ہدف دیا ہے کہ وہ انخلا کی صورت میں افغانستان میں امریکی مفادات محفوظ رہنے کو یقینی بنائیں۔ افغان طالبان روس‘ چین اور پاکستان میں مختلف مذاکراتی نشستوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی مرحلے ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات میں اس بات کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو سکے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس نے کئی کھرب ڈالر اس جنگ میں جھونک دیے۔ سینکڑوںامریکی اور اتحادی فوجی ہلاک ہوئے ‘لاکھوں افغان شہری مارے گئے۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کی اس حکومت کو ختم کرنے اور القاعدہ کو تباہ کرنے آیا تھا جو دہشت گردوں کی حامی تھی۔ طالبان حکومت ختم ہوئی اور بعدازاں اسامہ بن لادن بھی مارے گئے۔ اسامہ کی موت کے بعد اصولی طور پر افغانستان میں امریکی موجودگی کا جواز نہیں رہا تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان تنازع سے پاکستان کا کردار ختم کرنے اور بھارت کو علاقائی معاملات میں نیا شراکت دار قرار دینے سے معاملات خراب ہونے لگے۔ اس حکمت عملی نے امریکہ کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کیا اور آخر کار صدر ٹرمپ اس بات پر قائل ہو گئے کہ افغانستان امریکہ کے لئے ایک دلدل بن چکا ہے جہاں سے باعزت نکلنے کے لئے اسے طالبان سے بات کرنا ہو گی۔ امریکی حکام نے اپنے طور پر طالبان سے رابطے کئے جو بے نتیجہ نکلے۔ اس سلسلے میں پاکستان سے مدد کی درخواست کی گئی جس پر پاکستان نے مثبت جواب دیا۔ پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان امریکہ سے بات چیت پر آمادہ ہوئے لیکن امریکہ کی بار بار کی اپیل کے باوجود وہ افغان حکومت سے مذاکرات پر تیار نہیں۔ ایسا نہیں کہ طالبان پاکستان کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلہ افغان حکومت کی ساکھ اور اس اختیار کا ہے جس پر طالبان بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ حالیہ دورہ امریکہ کے دوران سیاسی و عسکری قیادت نے اس سلسلے میں امریکی حکام سے بعض یقین دہانیاں حاصل کی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اپیل پر وزیر اعظم عمران خان نے طالبان سے ملاقات کا وعدہ کیا اور اچھی بات یہ کہ طالبان نے وزیراعظم سے ملاقات کا ایجنڈہ معلوم ہوتے ہوئے رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کے لئے آمادہ کرنے میں امریکہ کے کئی اہداف ہیں۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ حتمی معاہدہ میں خود کو نکال کر یہ معاہدہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان چاہتا ہے۔ اس طرح وہ تاریخی طور پر براہ راست حملے اور شکست کے بوجھ سے بچ کر اپنا کردار ایسی قوت کے طور پر محفوظ کرنے کی تگ و دو میں ہے جو خانہ جنگی اور دہشت گردی کے مرکز میں ڈھل چکے افغانستان کی مدد کے لئے یہاں آئی اور پھر تمام متحارب قوتوں کے درمیان صلح کروا کر رخصت ہوئی۔ پاکستان نے اس سلسلے میں صرف امریکہ سے بات نہیں کی بلکہ خطے میں ابھرنے والے سٹریٹجک اتحاد کے سربراہ چین کو بھی اعتمادمیں لیا ہے۔ اسی لئے چین نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ افغان طالبان کی ممکنہ ملاقات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ یہ ایک مشکل اور نازک مرحلہ ہے جس میں تمام فریقین کا نیک نیت رہنا ضروری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان علاقائی طاقتوں‘ امریکہ اور طالبان کے لئے یکساں لحاظ سے مدد گار کا کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔جس سے اس کے بین الاقوامی اثرورسوخ اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔