ہم محبت میں ابھی اور رنج اٹھانے کے نہیں زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں اک نہ اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں کیا کریں ہم بار بار مچھلی کی طرح پتھر چاٹ کر واپس آتے ہیں مگر کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کچھ تجربے کی بنیاد پر اپنی سمت نمائی کر سکیں کہ ہمارے لیے کیا سود مند ہے اور کیا نقصان دہ۔ کیا ہم اس پر بھی قادر نہیں کہ اپنی ترقی کا سوچ سکیں۔ کیا ہم اپنی سوچ فکر اور ماضی الضمیر کے لئے اپنی زبان کا سہارا نہیں لے سکتے۔ کیا ہمارے خوابوں کی تعبیر اپنی زبان میں ممکن نہیں یہ کمتری نہیں تو کیا ہے۔ شاید غلامی میں پروان چڑھنے والے دماغوں کا تسلسل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم غلامی میں اپنی شناخت اور تشخص کے لئے زیادہ حریت نظر رکھتے تھے اور زیادہ ولولہ انگیز تھے آزادی کے بعد تو ہمیں اپنی آرزوئوں کو مجسم کر دینا چاہیے تھا 1973ء کے آئین اور اس کے تناظر میں عدالت عظمیٰ کے 8ستمبر 2015ء کے فیصلے اور خود تحریک انصاف کے منشور کے مطابق اب تک اردو زبان کو سرکاری زبان ہو جانا چاہیے تھا۔ یکساں نظام تعلیم کے لئے بھی اردو زبان بنیادی سہولت فراہم کر سکتی ہے سب سے بڑھ کر اردو زبان کا قومی زبان ہونا حضرت قائد اعظم کافیصلہ ہے۔ ان کا زرخیز اور زیرک دماغ ترقی کی اساس کو سمجھتا تھا اس لئے اب تک جو طبقہ اس زبان کو دفتری اور سرکاری زبان بننے کے راستے میں رکاوٹ ہے وہ پاکستان اور اس کی عوام کا خیر خواہ ہرگز نہیں یہ بالکل عام فہم سی بات ہے کہ مراعات یافتہ اشرافیہ اور بیورو کریسی لوگوں کو تاریکی میں رکھنے کی آرزو مند ہے۔ کیا کروں زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ ہم آخر کیوں نہیں سوچتے کہ ہم ایک قوم ہیں تو ہماری قومی زبان اپنا مقام کیوں کھو رہی ہے بلکہ اسے اس کا مقام ملا ہی نہیں ایک سازش کے تحت اردو کو تحقیر کا نشان بنا دیا گیا یہی لمحہ فکریہ ہے۔ایسی دگرگوں صورتحال میں کچھ سر پھرے ،اردو زبان سے محبت کرنے والے امید کی شمع جلائے ہوئے ہیں پاکستان قومی زبان تحریک کی روح و رواں فاطمہ قمر نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا کہ جس میں چیدہ چیدہ صاحب الرائے لوگوں کو زحمت دی اور تحریک کو انگیخت لگانے اور اردو کو سرکاری سطح پر رائج کروانے کے حوالے مشاورت کی۔ بہت اچھا لگا کہ اس تحریک کے مرکز صدر جناب جمیل بھٹی کی صدارت میں ہم اکٹھے ہوئے جمیل بھٹی صاحب ایک معروف بیورو کریٹ ہیں اور میرے ایم اے کے استاد جناب اسماعیل بھٹی مرحوم کے فرزند ہیں اسماعیل بھٹی انگریزی ڈیپارٹمنٹ پی یو کے چیئرمین اور پنجابی کے شاعر تھے۔ اس میٹنگ میں اس تحریک کے ایک اور نہایت فعال دانشور سلیم ہاشمی نے بھی بہت اچھی باتیں کیں کہ ہمیں اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہیے۔ پروفیسر مظہر معین جو کہ عربی کے زیرک عالم ہیں نے بہت زبردست گفتگو کی کہ جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے تو وہ اردو کو اب ایسے بھی بولتے اور سمجھتے ہیں جیسے کہ مادری زبان ہو اور پاکستان بننے سے پہلے علامہ اقبال نے بھی یہی فرمایا تھا کہ مسلمان مردم شماری کے وقت زبان کے خانے میں اپنی مادری زبان اردو ہی کو لکھیں اسی لئے اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا گیا ویسے بھی اس زبان کا حسن فارسی اور علم عربی سے آراستہ ہے۔ ویسے بھی ایک نہایت اعلیٰ تہذیب شائستگی اور آرائش اس زبان سے وابستہ ہے : بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک تو اپنی پوری کلاس سمیت آئے تھے اور ان کی یہ بات اچھی لگی کہ وہ اپنے شاگردوں کے پیغام کو بھی اگر وہ رومن میں لکھا ہو تو جواب نہیں دیتے۔ یوں ایک سطح پر اپنے اثرورسوخ سے اردو کو عام کیا جا سکتا ہے۔ وہ بتانے لگے کہ صورت حال یہ ہے کہ اردو کی آسامی کے لئے آپ درخواست اردو میں لکھتے ہیں تواعتراض لگ جاتا ہے میں نے گائیڈ کرتے ہوئے کہا کہ بعض اردو کے پروفیسر اپنے وزٹنگ کارڈ انگریزی میں تیار کرواتے ہیں میں نے تو ایک اردو کانفرنس کا دعوتی کارڈ بھی انگریزی میں دیکھا ہم لاشعوری طور پر ایک احساس کمتری کے شکار ہیں جسے جھٹک دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ایک شعر ذھن میں آ گیا: کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ و سال کو میں نے اگر جھٹک دیا سر سے ترے خیال کو مجھے سکندر جاوید ایڈووکیٹ اچھے لگے کہ وہ گزشتہ تیس سال سے اپنا کیس ہمیشہ اردو میں لکھتے ہیں اور وہ کسی کی پروا نہیں کرتے ان کی بات درست ہے کہ جج اور وکیل اکثر اردو میں جرح کرتے ہیں مگر فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں محترم جمیل بھٹی صاحب نے تو اکثر بڑے بڑے عہدوں پر کام کیا اور میٹنگز کی ہیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ سب کچھ اردو میں چل رہا ہوتا ہے اور جب حاصل حصول منٹس یا نکات لکھنے کی باری آتی ہے تو انگریزی اور پھر انگریزی کو درست کرتے کرتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔ کنول فیروز صاحب بھی ہمارے مہمان خاص تھے۔ فاطمہ قمر نے بتایا کہ کئی شہروں میں انہوں نے اس تحریک کے دفاتر بنا دیے ہیں اور اس کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں کہ ہر سطح پر لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ ہماری ترقی اردو ہی میں مضمر ہے۔ یہ صرف زبان نہیں ہے یہ معاشرت اور نظام ہے ۔بڑی اچھی بات پتہ چلی کہ ایک بڑھیا ڈی ایم جی افسر سے بات کر رہی تھی تو افسر نے کہا آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ اماں نے کہا تو آپ کا قصور ہے کہ آپ کو اردو نہیں آتی۔ آپ انگریزی میں بات سمجھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی کو بھی دشواری نہ ہو۔ انگریزی کی مخالفت ہرگز نہ کی جائے بلکہ اردو کو آگے لایا جائے انگریزی کے الفاظ اگر اردو کا حصہ بن جائیں تو انہیں کھپ جانا چاہیے۔ یہی تو لشکری زبان کی تعریف ہے۔ میٹنگ میں شرکت کرنے والوں میں سائرہ لطیف‘ امیر ماریہ‘ رابعہ لطیف‘ عطیہ نذیر‘ میمونہ رحمن‘ فاطمہ افضل قرشی‘ محمد مظہر عالم‘ محمد سلیمان اصفاں‘ناصرہ کاظم بودلہ‘ سجاول قیوم‘ رانا سید‘ ڈاکٹر محمد غفار محمد اور کچھ دوسرے لوگ موجود تھے۔ بہرحال ہم فاطمہ قمر‘ جمیل بھٹی اور سلیم ہاشمی کو مبارکباد بھی دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اس اعلیٰ مقصد کے لئے حاضر ہیں: ایک جگنو ہی سہی ایک ستارہ ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی اک نہ اک روز اتر جائیں گے ہم موجوں میں اک سمندر نہ سہی اس کا کنارہ ہی سہی