قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں ،وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ پیر نور الحق قادری نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے خاتمہ کا اعلان کیا ہے ، انہو ں نے کہا پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اپنے مقاصد اورا ہداف کے حصول میں ناکام رہا ،جس کے سبب حکومت کویہ فیصلہ کرنا پڑا ۔ وفاقی سطح پر پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام، بذریعہ آرڈنینس نمبر XL۔ 18اگست2001۔ عمل میںآیا اور اس کے ذریعے وفاقی حکومت کے زیر اہتمام ابتدائی طور پر اسلام آباد ،کراچی اور سکھرمیں تین ماڈل دینی مدارس کی تشکیل ہوئی،جس میں اسلام آباد کا مدرسہ طالبات کے لیے ،جبکہ کراچی اور سکھر کے مدارس طلباء کے لیے قائم کئے گئے ۔ان ماڈل مدارس میں روایتی دینی درسیات کے ساتھ ، جدید عصری تعلیم کا بھی خاص طور پر انتظام کیا گیا ، جس میں درس نظامی کے ساتھ جماعت ششم تا انٹرمیڈیٹ کی تدریس شامل تھی ۔ا ن اداروں میں طلبہ کے لیے مفت تعلیم، رہائش ،کھانا ، یونیفارم اور تدریسی کتب کی فراہمی کا بطور خاص اہتمام تھا۔ مزید براں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ ، پرائیویٹ سیکٹر کے مدارس کے الحاق ، اوران کے لیے اسی نوعیت کے ’’پیکج ‘‘کی گنجائش موجود تھی ۔اس مدرسہ بورڈ کی ایک وقیع اکیڈمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیزقائم ہوا، جس میں تمام مسالک کے معتبر علماء اور نامور دانش گاہوں کے مسند نشین شامل تھے ۔سرکاری سطح پر ’’ مدرسہ ایجوکیشن ‘‘کا اہتمام یقینا ایک مستحسن قدم تھا، بالخصوص عصری ضروریات کے تناظر میں ایسا ایجوکیشن سسٹم ،جس میںبیک وقت جدید اور قدیم علوم کی تدریس کا اہتمام ہو، کی ترویج وقت کی اہم ضرورت تھی ۔قومی اوربین الاقوامی تناظر میں ، اس جدید مدرسہ سسٹم کو ، 9/11 کے بعدکے حالات وواقعا ت میں، حکومتی سطح پر غیر معمولی اہمیت اور پذیرائی میسر آئی اور اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی ، او ر شاید یہ توقعات کسی نہ کسی سطح پر پوری بھی ہو جاتیں ،اگر اخلاص اور محنت کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھایا جاتا ۔اسی اثنا میں پاکستان میں پہلے سے موجود دینی مدارس اوران کے تعلیمی بورڈز، جن میں تنظیم المدارس ، وفاق المدارس العربیہ ، وفاق المدارس السلفیہ ،وفاق المدارس الشیعہ اور رابطۃ المدارس شامل ہیں ، نے اپنے بعض خدشات کے پیشِ نظر ، اپنے مسلکی بُعد کو بالائے طاق رکھ کر، خودکو منضبط اورمستحکم کرتے ہوئے ’’اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ فورم قائم کر لیا،جو پاکستان کے مسلمہ مسالک اور مکاتبِ فکر کے سب سے بڑے اورنمائندہ پلیٹ فارم کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کا مقصد دینی مدارس کی خود مختاری اور آزادی کو ختم کرنا، یا کسی مدرسہ یا دارالعلوم پر مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نصاب یا نظام کو مسلط کرنا نہ تھا، اور نہ ہی کسی ادارے کو اس کے ساتھ الحاق کے لیے مجبور کیاجانا، اس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ تاہم رواں صدی کے ابتدائی سالوں میں، قومی اوربین الاقوامی اُفق پر رونما ہونے والے پے در پے واقعات نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے نام پر دینی مدارس کے تابناک کردار پربعض سوالات اُٹھادیئے ۔ اس مخصوص پس منظر اور پیش منظر کے سبب، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو اپنی نشوونما کے لیے جومثبت اور خوشگوار ماحول میسر آنا چاہیے تھا ، وہ نہ آسکا او ر یہ سمجھ لیا گیا کہ شاید مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ۔ پاکستان کے موجودہ دینی مدارس کے خلاف کسی سازش کا شاخسانہ ہے ، حالانکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تشکیل حکومت کا ایک صائب فیصلہ تھا ، اور اس منصوبے کی کامیابی سے حکومت بھی اس ’’مدرسہ سسٹم‘‘میں ایک Stakeholder کے طور پر شامل ہو جاتی ، جس نظام کا غالب حصہ پرائیویٹ سیکٹر میں ، سر گرم عمل تھا ۔ لیکن اکابر دینی شخصیات کی بے اعتنائی ،اور سرکاری افسران کی بے بضاعتی اس اہم پراجیکٹ کے راستے میں حائل رہی ۔ ادارہ سازی ایک مشکل کام ہے ، سرکاری اور دفتری اہلکار اس "Committment" ، جذبے اور سپرٹ تک شاید نہ پہنچ پائیں ،جو ایک مدرسہ یادارالعلوم بنانے اور چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے، اس کے لیے جو ترتیب ، تواز ن ، تسلسل اور لگن درکار ہوتی ہے، اس سے معمول کے دفتری اوقات کار کے حامل سرکاری اہلکار آشنانہیں ہوتے ۔سرکاری سطح پر یہ ہزیمت پہلی مرتبہ نہیں ۔۔۔وطنِ عزیز پاکستان میں دینی مدارس کی ضابطہ بندی اور ان کے نصاب تعلیم کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ، حکومتی اور ریاستی سطح پر اولین کوشش 1979ء میں ہوئی ،جب ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ ، کی سربراہی میں’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس‘‘تشکیل پائی ، جس نے دینی مدارس کے جملہ امور کومربوط کرنے کے لیے’’خود مختار ادارہ برائے دینی مدارس پاکستان‘‘کی تشکیل کی سفارش کی ، جو مدارس کے امتحانات ، نتائج ، اسناد، نصاب کی تدوین ونظرثانی جیسے اہم امور انجام دے اور مدارس اوران کے اساتذہ وطلبہ کی فلاح وبہبود کے لیے بھی کام کرئے ، اسی کمیٹی کی سفارش پر ،’’شہادۃ العالمیہ‘‘ کے حاملین کو ، اس وقت کی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے تعلیم وتحقیق کی سطح پر ایم اے عربی / اسلامیات کے مساوی تسلیم کیا، تاہم وہ قومی ادارہ جو مشترکہ طور پر دینی مدارس کے مذکورہ امور سرانجام دے پاتااور بالخصوص ان کے امتحانات وغیرہ کی نگرانی کرتا ، کی تشکیل تو نہ ہوسکی ،لیکن دینی مدارس کے ذمہ داران اپنی ڈگری کو ایم اے کے برابر تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی ڈاکٹر ہالے پوتہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہمارے دینی مدارس’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول کی عملی تصویر ہیں ،مدارس کے لیے اراضی کا حصـول ، عمارت کی تعمیر، کتب وفرنیچر کی فراہمی ، اساتذہ کا انتخاب ،طلباء کا داخلہ ،نصاب تعلیم کی ترتیب ، تدریس وامتحان کا انتظام، سندات کی تقسیم ،اخراجات کی فراہمی جیسے تمام امور کا اہتمام ،ناظمین دینی مدارس خود کرتے ہیں ۔انہوں نے لکھا کہ غالباً دینی مدارس ہی ملک میں واحد نظام ہے جو صرف اپنے ذرائع ووسائل پر قائم ہے ۔بعض شہروں میںمخیر حضرات کی مدد وتعاون سے بعض عظیم الشان درس گاہیں قائم ہیں ، مگر اکثر مدارس کو اپنی سادگی ،کفایت شعاری پر فخر ہے۔کمیٹی نے کوئٹہ سے مچھ جاتے ہوئے ، ’’مدرسہ تعلیم القرآن جلال آباد‘‘کا ذکرکیا، جو ایک سنگلاخ، خشک اوربالکل بے آب وگیاہ مقام پر واقع تھا اورجس کے مہتمم سیّدجلال شاہ گزشتہ بیس سال سے ،انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں ، دو کمروں پر مشتمل ایک معمولی جھونپڑی میں قرآن وحدیث کی تدریس میںمنہمک تھے ،اور ان کے استغنا کا یہ عالم تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر مچھ نے انہیں اس قومی کمیٹی کی آمد کی اطلاع دیکر ، میٹنگ میں شرکت کے لیے مچھ آنے کی درخواست کی ،تو سیّد صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر سے کہا گزشتہ بیس برس سے اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کے سبب مدرسے سے باہر قدم نہیں رکھا ، اگر حکم ہوتو چلا آتا ہوں ،بصورت دیگر مجھے رخصت مل جائے ، توممنون ہوں گا، واقعہ کی اطلاع پاکر ،پور ی کمیٹی اس عظیم استاد کی زیارت کے لیے ، اس کے ہا ں پہنچ گئی ۔