پوری دنیا میں کووڈ۔ 19 کے بعد آن لائن / فاصلاتی نظام تعلیم ہی سب سے بہتر اور قابل عمل طریقہ تعلیم ہے ،لیکن پاکستان میں اس حوالے سے کوئی خاص قابل اعتماد طریقہ موجودہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایچ۔ای۔ سی کی حکمت عملی بہت کمزور اور ناقص ہے۔ آج کی دنیا میں آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کا طریقہ بہت مقبول کارآمد ہے اور خصوصاً کرونا کی عالمی وبا کے بعد یہ مزید مقبول ہو چکا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب 2009 میں، میں نے کینیڈا کے ایک تعلیمی ادارے میں سوشیالوجی کے آن لائن لیکچرار کے لیے درخواست دی۔ لیکن اس وقت میں شش و پنج اور کشمکش میں مبتلا تھا کہ یہ طریقہ تدریس کیسے ممکن ہے؟ جب استاد کے سامنے کوئی شاگرد موجود نہیں تو وہ کیسے پڑھا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ممکن ہو تو بھی یہ طریقہ تدریس کس حد تک کامیاب ہو سکتاہے؟ مجھے آن لائن پڑھانا ایک بیزارکن طریقہ لگا لہٰذا میں نے اس لیکچرار شپ کیلئے درخواست دینے کا ارادہ منسوخ کر دیا۔ انیسویں صدی میں دنیا نے اس امر کو بھانپ لیا تھا لہٰذا 1873 میں یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ قائم کی گئی اور بیسویں صدی 1969 میں انگلینڈ میں اوپن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان میں بھی اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1974 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی قائم کی گئی۔ انگلینڈ اور کیٹیلونیا کی اوپن یونیورسٹیز کا شمار دنیا کی 500 بہترین جامعات میں کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انڈیا نے بھی 2013 میں فاصلاتی نظام تعلیم کا دیااور وہاںڈسٹینس لرننگ بیوروقائم کی گئی۔ گزرتے وقت نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا کہ فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے حاصل کی گئی ڈگری باقاعدہ ریگولر پڑھ کے حاصل کی گئی ڈگری سے کمتر ہے۔ بہرحال انگلینڈ، امریکا، کینیڈا اور جاپان وغیرہ جیسے ترقی یافتہ ممالک دنیا بھر کے طلباء کو آن لائن ڈگری اور تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور بلاشبہ مستقبل میں بھی یہ ایک مقبولِ ترین طریقہ تدریس ہو گا۔ اس طرح باقی مخصوص شعبوں مثلاً طب، انجینئرنگ، سماجی علوم اور آئی ٹی کی مانند فاصلاتی نظام تعلیم بھی ایک الگ شعبہ اور ہنر بن چکا ہے۔ بہرحال، پاکستان میں ابھی تک اس شعبے کو چلانے، ترتیب دینے اور اِس کی نگرانی کرنے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی اور نظام موجود نہیں ہے اور فاصلاتی نظام تعلیم / آن لائن نظام تعلیم سے ایک سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ فاصلاتی تعلیم / آن لائن پڑھنے کا بنیادی مقصد ان طلباء کو سہولت فراہم کرنا ہے جو ناگزیر وجوہات کی بناء پر باقاعدگی سے روزانہ کالج یا یونیورسٹی میں جا کے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن کرونا وائرس کی وبا کے بعد اب آن لائن تعلیم حاصل کرنا ایک باقاعدہ عالمی ضرورت بن گئی ہے اور یہ طریقہ ہر شعبہ زندگی میں رائج ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میں گنتی کے چند ماہر تعلیم اور تجربہ کار افراد ہیں جو اس طریقہ تدریس میں مہارت رکھتے ہیں لیکن وہ اس منصب پر فائز نہیں ہیں جہاں سے فاصلاتی نظام تعلیم کو ایک ذیادہ مؤثر اور کارآمد طریقہ تعلیم بنایا جا سکے۔ اِس حوالے سے طب اور انجینئرنگ سب سے زیادہ ماہر شعبے جانے جاتے ہیں لیکن یہ دونوں صرف اپنے اپنے دائرہ کار تک ہی محدود ہیں۔ دیگر شعبوں کی طرح ترقی پذیر ممالک اس حوالے سے بھی بہت پیچھے ہیں کہ جہاں آن لائن نظام تعلیم میں بہتری لانے کیلئے کوئی خاص اقدامات کیے گئے ہوں نتیجتاً آن لائن پڑھنے والے ہزاروں طالبعلموں کو بہت ساری مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پیشہ ور/ تجربہ کار افراد ایک طریقہ کار وضع کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں لیکن یہ باقاعدہ نظام یا پالیسی مرتب نہیں کر سکتے۔ یہ شعبہ صرف فاصلاتی نظام تعلیم کے ماہرین کا ہے انہیں باقاعدہ طور پر ایک آن لائن نظام تعلیم تشکیل دینے کا موقع دیا جانا چاہئے اور پھر اس نظام کے تحت چلنے والے تمام اداروں کا اختیار انہی ماہرین کو دیا جائے تاکہ اس تعلیمی نظام کے تحت وہ جدید تحقیق، نئے نظریات، نئے وڑن اور بہترین لیڈرشپ فراہم کر سکیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ فاصلاتی/ آن لائن نظام تعلیم کے ماہرین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت وتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے ان اداروں کو کامیابی سے چلا سکیں۔ اس وقت پاکستان کی دو جامعات،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور اسلام آباد ورچوئل یونیورسٹی فاصلاتی / آن لائن تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔ یہ دور دراز/ دیہی علاقوں کے طلباء کو معمولی فیس کے ساتھ معیاری تعلیم سے نواز رہی ہیں۔ تاہم یہ جامعات روایتی طریقہ سے ہی تعلیم دینے پر مجبور ہیں۔ ان جامعات کے پاس مناسب تربیت یافتہ عملہ، ہنر، بہترین انفراسٹرکچر، انٹرنیٹ کی بہتر فراہمی اور امتحانات کی جدید ٹیکنالوجی ناپید ہے۔ فاصلاتی تعلیم /آن لائن پڑھائی کے سسٹم میں موجود ان خامیوں کو ان ماہرین کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے جو کہ آن لائن پڑھانے تجربہ، مہارت، جدید مواد رکھتے ہیں سماجی رابطے کو دوسروں میں بانٹ سکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو فاصلاتی تعلیم کے ماہرین کی سربراہی میں ایک بورڈ تشکیل دینا چاہئے تاکہ اس خصوصی شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔ اس تعلیمی بورڈ میں آئی ٹی، سماجی، بائیالوجی، حیاتیاتی، طبی ماہرین کیسا تھ انجینئرنگ کے شعبے سے بھی ماہرین کوشامل کیا جا سکتا ہے تاکہ ایک بہترین پالیسی بنائی جاسکے۔ یہ ماہرین آن لائن ابتدائی، ثانوی اور اعلی تعلیم میں نئے ویژن، نئے مشن اور جدید مقاصد اور ٹیکنالوجی کو وضع کریں۔ دریں اثنائ، یہ پالیسی محدود نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے صدیوں کی نہیں تو کم از کم آنے والی دہائیوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا جائے۔ پوری دنیا میں کورونا وائرس / کووڈ 19 جیسی وبا کا پھیلنا مستقبل میں پھیلنے والے وبائی امراض سے بچنے کا انتباہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تعلیمی پالیسی مرتب کرتے ہوئے اس نظام کو ذیادہ تیز، جدید، قابل بھروسہ بنانا چاہیے۔ پاکستان میں فاصلاتی تعلیم / آن لائن تعلیم کو جلد از جلد جدید ٹیکنالوجی اور پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے تا کہ آئندہ نسلوں کی بہترین خدمت کی جا سکے۔