25 جولائی2018ء کو ہونے والے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے گیارہویں انتخابات ہوں گے۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کی روح کے مطابق یعنی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات تو بدقسمتی سے ہوئے ہی23سال بعد، مزید بد قسمتی یہ کہ یہ بھی وطن عزیز کو دولخت کرگئے۔ اور پھر اس سے بھی بڑاالمیہ یہ کہ بعد کے برسوں میں بھی۔ کوئی بھی الیکشن ایسا نہ تھا جسے ہارنے والے نے تسلیم کیا ہو اور پھر جیتنے والوں کو گرانے کیلئے۔آخری حد یعنی پنڈی آب پارہ کا سہارا نہ لیا ہو۔ یوں الیکشن جو کسی بھی ملک میں ترقی، خوشحالی اور استحکام لایا کرتے ہیں مملکت خداداد پاکستان میں انتخابات سے پہلے اور بعد میں ایسا بھونچال لاتے ہیں جس سے ملک کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی چولیں ہل جاتی ہیں۔ پاکستان میں، ماضی میں ہونے والے۔ الیکشن کی تاریخ میں جاتو رہا ہوں مگر۔ مجھے علم ہے کہ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایساطول طویل باب ہے۔ جس کیلئے ایک دفتر بے کاراں چاہئے۔ مگر اس سے پہلے یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم تو اپنی ناگہانی موت کے سبب اپنی زندگی میں آئین اور پارلیمنٹ نہیں دے سکے مگر ان کے بعد قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین جیسے چند سیاستدان قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں میں ایک ایسا آئین کیوں نہ دے سکے جس کی بنیاد پر ملک میں آزادانہ الیکشن سے ایک خودمختار پارلیمنٹ کی بنیاد رکھی جاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ دو ایسے بڑے واقعات بلکہ سانحات بھی ہوئے جو بعد میں ملک میں پہلے پاپولر جی ہاں عوام میں قبولِ عام مارشل لاء کامتحرک اور سبب بنے ۔ایک تو گورنر غلام محمد کے ہاتھوں1954ء میں پہلی دستورساز اسمبلی کا ٹوٹنا اور جس پر سپریم کورٹ کا مہر لگانا۔ اور دوسرے مشرقی پاکستان میںمسلم لیگ کے خلاف بننے والے متحدہ محاذ یعنی جگتو فرنٹ کی حکومت کو یک جنبش قلم توڑنا۔ یہ درست ہے کہ1956ء میں جو اس وقت پہلا آئین دیاگیا تھا اگر اس کی بنیاد پر ہی وقت مقررہ پر الیکشن ہوجاتے تو آئندہ برسوں نہیں دہائیوں تک اس ملک کے غریب، مظلوم عوام کو مارشل لاء یا مارشل لاء کا مطلق العنانی دو ر نہیں دیکھنا پڑتا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا گیارہ سالہ دور، ان کا دیا ہوا1962ء کاآئین اورپھر اس کے تحت1964ء میں جی ڈی سسٹم کے تحت انتخابا ت پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اور یہ اب کب کا تاریخ کے ڈسٹ بن میں ڈالا جا چکا ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان مارشلاتی حکومت کے ساتھ اقتدار میں آئے تو شاعر عوام حبیب جالبؔ کے اس شعر نے بڑی شہرت پائی کہ تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پراتنا ہی یقین تھا 25مارچ1969ء کو جب صدرجنرل ایوب خان اقتدار سے دستبردار ہورہے تھے تو1962ئکے آئین کے تحت وہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خان کو قائمقام صدر کے عہدے پر فائز کرسکتے تھے مگر جس شاطرانہ چال سے فوج کی ڈھال سے وہ1958ء میں اقتدارمیں آئے اسی روایت پر چلتے ہوئے یحییٰ خان نے بے بس بیمار صدر ایوب خان سے اقتدار چھین کر تین ٹوپیاں اپنے سر پر سجالیں۔ مگر اس حد تک تو اس آمدِ بدمست کو کریڈٹ دیاجائے گا کہ اس نے پاکستان کی تاریخ میںبہرحال پہلے آزادانہ انتخابات کرائے جسے ملک کی تمام ہی جماعتوں نے تسلیم بھی کیا۔ گوکہ اس حوالے سے معتبر مورخین کاکہنا ہے کہ جنرل یحییٰ خان اور اس کے فوجی ٹولے کاخیال تھا کہ مغربی اورمشرقی پاکستان میں جو منقسم نتائج آئیں گے۔ اس میں صرف ایک ہی بات پر اتفاق ہوگا۔ اور وہ ان کایعنی جنرل یحییٰ خان کا صدر مملکت بننا مگر اپنی عادتوں اورعلتوں کے اسیر جنرل یحییٰ خان کو یہ علم نہ تھا کہ ہر الیکشن کی اپنی ایکDynamicsیعنی حرکیات ہوتی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے بانی پاکستانی سیاست کے سحر انگیز سیاست دا ن ذوالفقار علی بھٹو اور سرکش،خوسر بنگالی قوم پرست بنگلہ بندھو کو بھی یہ یقین نہ تھا کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں اتنی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکیں گے۔بھٹو صاحب کاپنجاب میں اکثریت سے قومی و صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہونا محض تبدیلی نہیں ایک انقلاب تھا۔ جس کا متحرک روٹی، کپڑا،مکان کانعرہ تھا۔ مشرقی پاکستان میںعوامی لیگ کو جو کامیابی ملی وہ بھی ایک ریفرنڈم تھی۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف اور ایک آزاد دیش کے قیام کیلئے۔ البتہ بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں جو نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو کامیابی ملی۔ اس نے ایک بات تو واضح کردی تھی کہ اس وقت کے پانچوں صوبوںمیںجن جماعتوں نے کامیابی حاصل کی وہ ایک ترقی پسند، سیکولر، جمہوری پاکستان چاہتی تھیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا1970ء کے انتخابات پر ایک نظرڈال لیں۔ 1970ء میں قومی اسمبلی کی300نشستوں میں سے۔ عوامی لیگ ……… 160 (ساری کی ساری مشرقی پاکستان سے) پیپلزپارٹی……81( صوبہ سرحد سے ایک اور بلوستان سے ایک بھی نشست پی پی کو نہیں ملی تھی) نیشنل عوامی پارٹی……6 جمعیت علمائے اسلام……8 جمعیت علمائے پاکستان……7 جماعت اسلامی……4 قیوم خان لیگ……7 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں تو98فیصد عوامی لیگی کامیاب ہوئے۔ پنجاب اور سندھ میں پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے جبکہ بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں دونوں جماعتوں کو اتنی نشستیں مل گئیں جن سے وہ ان دونوں صوبوںمیں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ یقینا اور قطعی طورپر یہ ایک صاف و شفاف الیکشن تھے۔ مگر بد قسمتی سے ایک تو اسلام آباد میں بیٹھی سویلین فوجی نوکر شاہی کی ابتداء ہی سے نیت میں فتور تھا۔ دوسرے عوامی لیگ کے قائد اتنی عظیم الشان کامیابی کے بعد مغربی پاکستان سے ابھرنے والی دوسری سیاسی قوت کو شریک اقتدار نہ کرنا چاہتے تھے۔ چھ ’’نکات‘‘ جن پر انہیں98فیصد کامیابی حاصل ہوئی تھی بہر حال وفاق اور فیڈریشن سے متصادم تھے۔ پھر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے سیاسی مزاج کے سبب اتنے صبر وتحمل کے حامل نہ تھے کہ اصولی طورپر وفاق میں اپوزیشن اور دونوں صوبوں میں اقتدار پراکتفا کرتے۔48برس گزرگئے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مگر یہ ساری کتابیں بھی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پھریہی نہیں لاکھوں بنگالیوں اور جی ہاں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں غیر بنگالیوں یا معروف معنوں میں بہاروں کے خون بے جاکا کون سب سے بڑاذمہ دار تھا۔ بظاہر اس سارے خونی کھیل کے تین بڑے فریق تھے۔ یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو۔ مگر ان تینوں کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ ایک حد تک اپنی اپنی ذات اورپھر دوسرے ہوس اقتدار۔ مگر ہاں اس سارے کھیل کے اس بڑے فریق کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ جو روایتی طورپر قیام پاکستان کے بعد ہی وطن عزیز کی سلامتی کے درپے تھا۔ شیخ مجیب اور اس کی مکتی باہنی میں اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ محض اپنی تنظیم کے بل بوتے پر پاکستانی فوج کو شکست دے پاتی۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا موقع فراہم کرنے میں یحییٰ خان کے فوجی ٹولے کا ہاتھ بھی تھا اور ہمارے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا بھی جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی پر’’خدا کا شکر‘‘ ادا کیاتھا۔ بھٹو صاحب جیسے جہاں دیدہ اسٹیٹس مین نے جو ہاتھ بنگال دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن سے اسلام آباد میں ملایا اگر وہ ڈھاکہ میں فوج کشی سے پہلے بنگلہ بندھو سے ملا لیتے تو کیا آج تاریخ مختلف نہیں ہوتی مگر قوموں کا ان کی نمائندہ جماعتوں اور لیڈروں کا المیہ ہی یہی ہے کہ ان کی نظرماضی کی تاریخ پر نہیں ہوتی ۔سیکھنا تو کیا وہ اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔1970ء کے الیکشن نے ملک کو دولخت کیا تو مارچ1977ء کا الیکشن برصغیر پاک و ہند کے مقبول ترین، کرشمہ ساز قائد کو ہی پھانسی کے تختے پرچڑھاگیا۔(جاری ہے)