پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کی ایک بڑی وجہ توانائی کی قلت ہے۔ قدرت نے ہمیں کوئلہ اور پانی کی مدد سے بجلی بنانے کے بیش بہا وسائل دیے ہوئے ہیں لیکن ہم ان کامناسب استعمال نہیں کرسکے۔دنیا میں سورج اور ہوا سے بجلی بنانے کا رواج بڑھ گیا ہے لیکن ہمارا ملک اس میدان میں بھی سست روی کا شکارہے۔ وطن ِعزیز کا سارا زور تیل اورقدرتی گیس پر ہے جنہیں بیرونِ ملک سے درآمدکرنے پر قیمتی زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر تھوڑے عرصہ بعد حکومت کو زرِمبادلہ کے بحران کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ملک کی معاشی صحت کا تقاضا ہے کہ تیل اور گیس پر انحصار کم کیا جائے اور توانائی کے مقامی وسائل کو ترقی دی جائے۔ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہماری توانائی کی ضروریات میں سالانہ اوسطاً چھ سے سات فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں جوتیل (پٹرولیم)نکلتا ہے اُس سے ملک کی مانگ کا بمشکل پندرہ فیصد پورا ہوتا ہے۔ پچاسی فیصد باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔قدرتی گیس کا معاملہ تیل سے قدرے بہتر ہے لیکن پوری طرح نہیں۔ پاکستان کی گیس کی اسّی فیصد طلب ملکی وسائل سے پوری کی جارہی ہے لیکن حکومت کو سردی کے موسم میںلوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے‘ گاڑیوں کے استعمال کی گیس کے اسٹیشن بند کرنے پڑتے ہیں۔ سوئی (بلوچستان) اور قادرپور(سندھ) میں گیس کے بڑے بڑے ذخائر نے ہمیں کسی حد تک بڑے بحران سے بچایا ہوا ہے لیکن ہر بر س طلب بڑھنے کے ساتھ ساتھ گیس کم پڑتی جارہی ہے۔ اسی لیے ہم قطر اور دوسرے ملکوں سے مائع کی شکل میںقدرتی گیس (ایل این جی) خرید رہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال (2018-19ئ)میں ہم نے ساڑھے چودہ ارب ڈالر کا تیل اور ساڑھے تین ارب ڈالر کی قدرتی گیس بشمول ایل این جی دوسرے ملکوں سے خریدے۔ اس طرح اٹھارہ ارب ڈالر توایندھن خریدنے پر خرچ ہوگئے۔ برآمدات سے تقریبا پچیس ارب ڈالرکمائے تھے جن کا ستّر فیصد ایندھن میں چلا گیا۔ اب گنجی نہائے گی کیا‘ نچوڑے گی کیا ۔ باقی ضرورتوں کے لیے زرِمبادلہ (فارن کرنسی) قرض کی صورت میں لینا پڑتا ہے۔توانائی کی روز بروز بڑھتی طلب اوربیرون ملک سے اسکی خریداری نے ہمارے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ ہر سردی میں گیس کی قلت کا شور مچتا ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ حکومت گیس کیوں فراہم نہیں کرتی لیکن کوئی یہ بھی بتائے کہ وافر گیس منگوانے کو زرمبادلہ کہاں سے لایا جائے؟ خرابی یہ ہوئی کہ گزشتہ تیس برسوں میں مختلف حکومتوں نے تیل اور گیس پربہت زیادہ انحصار بڑھا لیا۔قدرتی گیس کا سب سے زیادہ استعمال بجلی بنانے کے لیے ہورہا ہے۔ اس وقت پاکستان ساٹھ فیصد بجلی تیل اور گیس سے بنا رہا ہے۔ ہمیں متبادل توانائی کے ذرائع پر توجہ دینی چاہیے جو ملک کے اندر موجود ہیں ‘ جن پر زرمبادلہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ ایندھن کا ایک بڑا وسیلہ کوئلہ ہے اور پاکستان میںاسکے 185ارب ٹن ذخائر موجود ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے کوئلہ کو استعمال نہیں کیا۔ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات کا ساٹھ فیصد کوئلہ سے پوری کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف سات فیصد ۔ ایندھن کے لیے ہمارے ملک میں لاکھڑا (دادو)اور تھر کے صحرا میں وسیع مقدار میں کوئلہ موجود ہے۔ تھر کا کوئلہ لاکھڑ اکے مقابلہ میں بہتر سمجھا جاتا ہے۔ زمین سے بہتر معیار کا کوئلہ نکالنے کے لیے اسے گہرا کھودنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس اسکی ٹیکنالوجی نہیں۔ اگر ہم اچھے کوئلہ کونکالنے کی ٹیکنالوجی کو بروقت ترقی دیتے تو باہر سے تیل اور گیس بھی کم منگوانا پڑتے۔ حالیہ برسوں میںکوئلہ کی مدد سے بجلی بنانے کے کئی پلانٹ لگائے گئے ہیں جس سے کوئلہ کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ کوئلہ سے ماحول کی آلودگی بڑھ جاتی ہے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کوئلہ کا استعمال بتدریج چھوڑرہے ہیں لیکن پاکستان تو پہلے ہی دوسرے ملکوں کی نسبت بہت کم کوئلہ برت رہا ہے اس لیے ہمیں اس بات کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے۔احتیاط صرف یہ کرنی چاہیے کہ کوئلہ سے بجلی بنانے کے جو پلانٹ لگائیں وہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہوں تاکہ ان سے کم آلودگی پھیلے۔کوئلہ سندھ کے جن علاقوں سے نکلتا ہے بجلی بنانے کے منصوبے اُنہی جگہوں پر لگانے چاہئیں تاکہ اسکی ٹرانسپورٹ پر اخراجات نہ ہوں۔ اسی طرح‘ پاکستان میں دریاؤںپرپن بجلی کے منصوبے تعمیر کرکے ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن حکومت اس استعداد کا صرف گیارہ فیصدبنارہی ہے یعنی سات ہزار میگاواٹ۔ بھاشا ڈیم کا شور تو بہت مچا لیکن اس پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ پشاور کے قریب مہمند ڈیم منصوبہ پر کام کا آغاز ہوچکا ہے جس سے آٹھ سو میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی ۔دریاؤں اور نہروں پر چھوٹے چھوٹے ‘کم لاگت کے مختلف ہائڈل پاور پراجیکٹ بنا کر مجموعی طور پر تین ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی استعدادبھی موجود ہے۔ حکومت اِن چھوٹے منصوبوں کو تیزرفتاری سے بنادے تو معیشت پر اچھا اثر پڑے گا۔ ان منصوبوں سے اتنی آمد ن ہوجاتی ہے کہ پانچ برسوں میں لاگت نکل آتی ہے۔ پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں سے فضائی آلودگی بھی نہیں پھیلتی۔ سب سے بڑا فائدہ ‘پانی سے بجلی بنانے کی لاگت بہت ہی کم ہے ۔ اِن دنوں سی پیک کے تحت چین سے نو ارب ڈالرقرض لیکر ریلوے کا ایم ایل و ن منصوبہ بنانے کی باتیں چل رہی ہیں۔ اس مہنگے کام کو فی الحال ملتوی کرکے پہلے بھاشا ڈیم بنایا جانا چاہیے۔ اس ڈیم کی ہرٹیکنیکل تیاری مکمل ہے‘ صرف سرمایہ کاری درکار ہے۔ پشاور سے سکھر تک اورحیدرآباد سے کراچی تک موٹروے موجود ہے۔ ٹرانسپورٹ کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ریلوے کا منصوبہ چار پانچ سال بعد بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔فی الحال معیشت کے لیے سستی بجلی بنانا زیادہ اہم ہے ۔ہمارے ملک میں اتنا زرمبادلہ دستیاب نہیں کہ ہم تیل اور گیس کی درآمدات بے تحاشا بڑھاتے چلے جائیں۔ عوام کو بھی سستی بجلی چاہیے۔ ان میں مزید مہنگی بجلی خریدنے کی سکت نہیں۔توانائی کے ملکی وسائل کو ترقی دینے میں ہی ہماری نجات ہے۔